"FBC" (space) message & send to 7575

جس کا ذکر نہ تھا

15 قومی اور 26 صوبائی نشستوںکے الیکشن سے تخت گرنے اور تاج اچھالے جانے کا خدشہ یقیناً نہیں تھا اور نہ ہی ابھی اس قدر مایوسی اور غیظ و غضب نے جنم لیا ہے۔ ابھی تین ماہ قبل ہی پیپلز پارٹی کے سنہرے دور کے بعد عوام نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے نو ن لیگ اور تحریکِ انصاف کا انتخاب کیا تھا۔ فوج کی نگرانی میں بڑے پیمانے کی دھاندلی ممکن نہ تھی؛ لہٰذا سیاسی جماعتوں کے لیے یہ الیکشن ایک مصدقہ سروے کا کام ضرورکر سکتاہے تاکہ وہ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک سکیں۔ اپنے حریف سیاستدانوں کے برعکس عمران خان پر کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات نہ تھے۔ سماجی بہبود کے میدان میں انہوں نے ناقابلِ یقین کارنامے انجام دیے تھے۔ تاثر یہ تھا کہ حکومت ملنے پر ان کی کارکردگی ایسی ہوگی کہ مخالف سیاسی قوتیں عوامی بارگاہ میں ہمیشہ کے لیے مسترد کر دی جائیں گی لیکن اب ان کی اپنی دو نشستیں مخالفین لے اڑے ۔ این اے 1پر ریلوے کا کریا کرم کرنے والے غلام احمد بلور کی فتح پر جمہوریت کو ایک \"باطل\"نظام قرار دینے والے طنزیہ قہقہے لگا رہے ہیں۔ دوسری نشست میانوالی کی ہے، جس نے خان صاحب کو ان کی شکستِ فاش کے وقت بھی مایوس نہ کیا تھا۔ ایک طرف تو ایسی اصول پرستی کہ عمر بھر کا تعلق دائو پہ لگا دیا اور دوسری طرف عائلہ ملک کی جعلی ڈگری پر اتنا سخت سٹینڈ؟ہر جعلی ڈگری والا اپنی بے گناہی کی داستان سنایا ہی کرتا ہے۔ ان جیسے لیڈر کو اس شد و مد سے محترمہ کا مقدمہ لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ نا اہلی کے بعد بھی درحقیقت عائلہ ملک ہی نے میانوالی سے الیکشن لڑا اور شکست کھائی۔ دوسری طرف دسمبر 2011ء میں پیراشوٹ کے ذریعے تحریکِ انصاف میں نازل ہونے والے جناب پرویز خٹک نئی فتوحات میں مصروف ہیں۔ مخصوص نشستوں پر خاندان کی تین خواتین کو منتخب کرانے کے بعد ضمنی الیکشن میںاپنے داماد کو نواز ڈالا ۔ یہ موروثی سیاست کی مخالف اور تبدیلی کی علمبردار تحریکِ انصاف ہے ! گزشتہ ہفتے قوم سے وزیر اعظم کے خطاب پر بات تو ہوئی لیکن پھر ضمنی الیکشن کے ہنگامے نے سب کچھ بھلا دیا۔ ریلوے اور پاکستان سٹیل مل سمیت بڑی کارپوریشنیں سالانہ پانچ سو ارب کا نقصان پہنچا رہی ہیں اور یہ حالیہ بجٹ خسارے 1620ارب کا تقریباً ایک تہائی ہے ۔ سادہ الفاظ میں کارِ سرکار چلانے کے لیے حکومت کے پاس 1620ارب روپے موجود نہ تھے، جس کی وجہ سے قرض لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ۔ حل یہ ہے کہ قابل اور دیانت دار ماہرین کو ذمہ داری سونپی جائے اور ایک حد تک نجکاری کر دی جائے تاکہ نجی شعبے کی ذہانت اور سرمائے سے فائدہ اٹھا یا جا سکے ۔ صورتِ حال مگر یہ ہے کہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک میٹرک پاس شخص کو ایک اہم قومی ادارے کے آپریشن ڈیپارٹمنٹ کا ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کی واحد تقرری نہ تھی۔ وزیر اعظم نے ملکی اور غیر ملکی قرضوں اور ان پر سود کو قومی خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ قرار دیا۔ بجٹ 2013-14 میں اس مد میں 1149 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ انہی قرضوں کی واپسی کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو یہ قرضے6000 ارب روپے تھے۔ لیکن پھر صرف پانچ برس میں یہ 14000 تک جا پہنچے ۔ سابق دور میں قرض لیے گئے 8000 ارب کہاں گئے؟ کیا اس کا کوئی سراغ لگایا جائے گا اور کیا قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہوگا؟ وزیراعظم اس بارے میں خامو ش ہی رہے۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام میں کرپشن اور بد انتظامی ایک عظیم قومی مسئلہ ہے۔ صرف اس محاذ میں پیش رفت سے پاکستان بیرونی امداد اور قرضوں سے رہائی پا سکتا ہے اورخارجہ پالیسی آزاد ہو سکتی ہے ۔ امید وںکو پہلا دھچکا تب لگا، جب جون میں وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ۔ ٹیکس سے مستثنیٰ شعبوں جیسا کہ سٹاک ایکسچینج اور زراعت سے موثر وصولی کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔ ایف بی آر کے مطابق صرف دس لاکھ پاکستانی ٹیکس ادا کرتے ہیں اور تیس لاکھ افراد ٹیکس چور ہیں۔ متعلقہ ڈیٹا قومی اداروں کے پاس موجود ہے ۔ نتیجہ مگر یہ ہے کہ رواں سال صرف ایک لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا ہدف ہے۔ وزیراعظم خاموش ہی رہے ۔ بجلی اور گیس کی کمی سے معیشت کو سالانہ 458ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے ۔ میاں محمد نواز شریف نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے حکومتی منصوبوں کا ذکر کیا لیکن ایران گیس پائپ لائن پر وہ خاموش رہے۔ ترجیحات کا عالم یہ ہے کہ کراچی میں زیرِ زمین سفری منصوبے پر 200 ارب روپے اجاڑنے کی تیاریاں ہیں ۔ جب تک توانائی کا یہ بحران جاری ہے، ایسے منصوبوں کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ مسئلے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پانی سے جو یونٹ 2,3روپے اور کوئلے سے8,9روپے میں پیدا کیا جا سکتا ہے، وہ تیل سے 18,19روپے میں پیدا کیا جا رہا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ بجلی نہ صرف بے حد مہنگی ہے بلکہ حکومت اپنی جیب سے بھی سبسڈی ادا کر رہی ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف بڑے ڈیم بنا رہا ہے بلکہ دریائوں کا رخ موڑا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میںہماری طرف سے خاموشی ہی رہی۔ پاک چین سرحد پر خنجراب سے لے کر پاکستانی ساحل گوادر تک موٹر وے اور ریلوے کا نظام ایک عظیم الشان منصوبہ ہے، جس سے روزگار کے ان گنت مواقع پیدا ہوں گے ۔ فی الوقت چینی بحری جہاز ویت نام، ملائیشیا، سری لنکا اور پورے انڈیا کے گرد گھوم کر مشرقِ وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک پہنچتے ہیں۔ چینی حکام کام شروع کرناچاہتے ہیں لیکن دہشت گردی پر اپنے تحفظات کا واضح اظہار کر چکے ہیں جو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ اس جنگ میں 50000ہزار پاکستانی شہری شہید ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ توفرمایا کہ مذاکرات یا طاقت کا استعمال ، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں راستے اپنائے جا سکتے ہیں لیکن کوئی ٹائم فریم نہ دیا۔ پچھلے پانچ برس سے سزائے موت پانے والے جن افراد کو پھانسی نہیں دی گئی، ان میں دہشت گرد بھی شامل ہیں ۔ پاکستانی طالبان کی طرف سے مذاکرات کی حالیہ پیشکش کے ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی گئی کہ ان کے ساتھیوں کو سزا دی گئی تو انتقام لیا جائے گا۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ حکومت سزا پر عمل در آمدروکنے پہ راضی ہو چکی ہے۔ دہشت گردوں کے حوصلے اب بڑھ جائیں گے۔ سنجیدہ لوگ جانتے ہیں کہ طاقت کے علاوہ طالبان سے نپٹنے کا اور کوئی راستہ نہیں۔ مذاکرات صرف اتمام ِ حجّت کا ذریعہ ہوں گے۔ جلد از جلد خوش فہمی کی جنت سے باہر نکل آنا چاہیے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں