"FBC" (space) message & send to 7575

تیسری جنگ دستک دے رہی ہے

193رکن ممالک کے ساتھ اقوامِ متحدہ کو عالمی تنازعات سلجھانے کا بہترین پلیٹ فارم ہونا چاہیے۔عین اس وقت جب مشرقِ وسطیٰ لہولہان ہے ، شام کے معاملے پریہ سلامتی کونسل نہیں ، کچھ اورعوامل تھے ، جنہوںنے جنگ کو ملتوی کیا۔ ماضی اور حال کی دو عالمی طاقتوں کے مفادات کا ٹکرائو اور اتحادیوں کی داخلی سیاست۔اس سے قبل عراق کے معاملے میں عالمی ادارے کو خاک چاٹنا پڑی ۔ آج کی اس ’’مہذب‘‘ دنیا میں معیشت، ٹیکنالوجی اور دفاعی میدان میں بالادست اقوام کی طرف سے کمزوروں کا استحصال عجیب لگتا ہے لیکن زمانہ ایک ہی کہانی دہراتا چلا جا رہا ہے ۔ طاقتور قبائل حملہ آور ہوتے ، مال اسباب لوٹتے اور انسان غلام بنالیے جاتے ۔ قرآنِ کریم یہودیوں کو یاد دلا تاہے ’’اور جب ہم نے تمہیں آلِ فرعون سے نجات دی ۔وہ تمہیں عذاب دیتے ، بدترین عذاب ۔ تمہاری اولاد کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے ۔ اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی ہی سخت آزمائش تھی ۔ ‘‘غلبے کی اسی وحشت نے ذہنی طور پر ایک شاندار انسانی نسل ناپید کر ڈالی کہ وہ آدم خور تھی۔ ایک قبیلہ دوسرے پر غلبہ پاتا تو اس کی تکّہ بو ٹی کر ڈالتا۔ شاید وہ 23ہزار سال قبل تک یورپ میں آباد نینڈرتھل (Neanderthal)آدمی تھا۔ ہم سے قبل تاریخ کا سب سے کامیاب انسان ! سچ تو یہ ہے کہ ہم پُر امن بقائے باہمی کی اہمیت سمجھ نہ سکے ؛حتیٰ کہ دو عظیم جنگوں میں آٹھ کروڑ آدمی قتل ہوئے ۔ پہلی جنگ کے بعد لیگ آف نیشنز قائم ہوئی تو 15ریاستیں ویٹو کا حق رکھتی تھیں اور ہر ا قدام روک دیا جاتا۔ نومبر 1939ء میں سوویت یونین نے فن لینڈپر حملہ کیا تو اسے لیگ سے نکال دیا گیالیکن سبق یہ تھا کہ ہر طاقتور کھلاڑی کولازماً شریک رکھنا ہوگا۔ اقوامِ متحدہ قائم کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کو جنگ کی تباہی سے بچانے کے الفاظ کھوکھلے تھے ۔ جنگِ عظیم کی فاتح (اور اقوامِ متحدہ کی بانی) اقوام ،روس، امریکہ ، برطانیہ ، چین اور فرانس ایک بار پھر خود کو ویٹو کا اختیار عطا کرتے ہوئے عملاً اس عظیم مقصد سے منحرف تھیں ۔ سلامتی کونسل عالمی امن کی ذمے دار تھی اور ان پانچ مستقل ممبران میں سے کوئی بھی جارح ملک کے خلاف کارروائی کے خلاف ڈٹ جاتا۔ امن کی عالمی خواہش ایک طرف اور پانچ طاقتور ریاستوں کے مفادات دوسری طرف۔وہ سب اپنے زمانے کی عظیم سلطنتیں (Empires) تھیں۔شکست خوردہ ہونے کی وجہ سے جرمنی ا ن میں شمولیت نہ پا سکا ۔ گزشتہ دو عشروں سے جاپان ، جرمنی، برازیل اور انڈیا کا اتحاد سر پٹخ رہا ہے کہ سلامتی کونسل کی مستقل نشستیں ہتھیا سکیں اور یہ ان کے حریفوں (بشمول پاکستان ) کے لیے خطرے کی ایک اور گھنٹی ہے ۔ شکست و ریخت کے بعد روس نے پانچ اور چین نے اپنی پوری تاریخ میں چھ مرتبہ ویٹو کیا ؛ البتہ حالیہ برسوں میں دونوں نے شام کے خلاف کارروائی روکنے کے لیے یہ حربہ برتا ہے ۔پچھلی نصف صدی میں 155 میں سے 133مرتبہ کونسل کے تین نیٹو ممبران یعنی امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ حالیہ عشروں میں امریکہ بے دریغ ویٹو کی یہ صلاحیت استعمال کرتا رہا ہے اور بیشتر اسرائیل کی کھال بچانے کے لیے ۔یہاں یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے کہ طاقتور یہودی لابی عالمی طاقت کے فیصلوں اور ترجیحات پہ بری طرح اثر انداز ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ویٹو کی عدم موجودگی (اور کثرتِ رائے کی بنیاد پر فیصلہ سازی) سے عالمی امن کی حالت شایداس قدر ابتر نہ ہوتی ۔ بدترین نا انصافی کا دوسرا مظہر ایٹمی ہتھیارہیں ۔حسین اتفاق یہ ہے کہ ویٹو کی طاقت رکھنے والے ممالک ہی ایٹمی ریاستیں ہیں۔ کرّہ ٔ ارض پہ بسنے والی چند اقوام کو یہ حق حاصل ہے کہ اُجاڑ نے والی مکروہ چیزیں نصب کریں ۔ کمزور اقوام ایسی کوشش کی صورت میں بدترین معاشی اور دفاعی پابندیوں کا سامنا کریں گی ۔ ایران ایک نمایاں مثال ہے لیکن نتیجہ انڈیا اور پاکستان کی صور ت میں بھی تو نکل سکتا ہے اور شمالی کوریا جیسا بھی ۔ مارچ 2013ء میں جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ مشقوں کے دوران امریکی جنگی طیارے شمالی کوریا میں جا گھسے ۔ جواباً ایٹمی حملے کی دھمکیوں پر بالآخر امریکا کو اس محاذ پر پسپاہوناپڑا۔ ویٹو کا غیر منصفانہ اختیار اور ایٹمی ہتھیار تلف نہ کیے گئے تو عالمی امن کی رتّی برابر ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی اور اس کے لیے اقوامِ متحدہ میں موجود کیڑوں مکوڑوں کو متحد ہو نا ہوگا۔ کشمیر اور فلسطین اقوامِ متحدہ کی بڑی ناکامیاں ہیں ۔ اس کا موقف یہ تھا کہ کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کافیصلہ خود کریں گے لیکن اگلے سو برسوں میں بھی وہ دنیا کی سب سے ڈھیٹ قوم (بھارت) سے اس پر عمل نہ کرا سکے گی ۔ جب ہم اس قابل ہوئے تو آزاد کشمیر کی طرح بزورِ بازو ہی یہ علاقہ آزاد ہوگا۔ تیسری عالمی جنگ ٹالنا اقوامِ متحدہ کی سب سے بڑی کامیابی گنی جاتی ہے اور یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ عالمی لاشعور پر پہلی جنگوں کے زخم اور ایک دوسرے کی بغل میں دبے ایٹمی ہتھیاروںنے سب کو خوفزدہ نہ کر ڈالا ہوتا تو نتیجہ ہم دیکھ لیتے۔ اب بھی خطرہ اسی طرح موجود ہے ۔ اب کی بار جو جنگ ہوگی ، وہ آنے والی سب جنگوں کا خاتمہ کر دے گی ۔ جہاں تک پاکستان کا سوال ہے ، سیکولر تجزیہ نگار بھی اب اتفاق کرتے ہیں کہ شام کے بعد ایران اور پھر پاکستان ہدف ہے ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی تقریباً اسی طرح ہو رہی ہے ، جیسی ایران کی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اس درد کے علاج پر سالانہ 20بلین ڈالر خرچ کر رہی ہے لیکن پاکستان ترنوالہ نہیں۔ خطرہ ہے تو جنگجوئوں اور ان سے اظہارِ خیر سگالی کے یک طرفہ شوق میں تڑپنے والوں سے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں