’’الویشا کے بابا مر گئے ہیں ‘‘ننھی عیشا نے کہااور میں ساکت ہوگیا۔ میں اسے سکول چھوڑنے جا رہا تھا اور ابھی ایک منٹ پہلے وہ فیڈر چھپا رہی تھی۔ سکول کے کسی بچے نے دیکھ لیا تو مذاق اڑائے گا۔ اس پر میں قہقہہ لگا کر ہنسا تھالیکن اب ایک بار پھر وہ اپنی سہیلی کے بابا کی ناگہانی موت کا ذکر کرنے لگی۔ ابھی وہ صرف پانچ برس کی ہے ۔ ایک برس قبل پہلی بار اس نے مجھے اس حادثے کی خبر دی تھی ۔ ’’الویشا کے بابا مرگئے ہیں ، ان کی ڈیتھ ہو گئی ہے ، وہ اللہ میاں کے پاس چلے گئے ہیں …‘‘ ذاتی طور پر مجھے ایسی موت بری نہیں لگتی ، جو ایک ابدی اور حسین زندگی کا آغاز ہو ۔ ہمیشہ کی زندگی، مکمل صحت ، ہر خواہش کی تکمیل ، مٹی کے ایک کمزور بدن کی حاجتوں سے نجات اور تمام پوشیدہ رازوں سے واقفیت لیکن ایک بچی کا اپنے باپ سے محروم ہونا… مجھے اسما اصغر یاد آنے لگی ۔ استخوانی ہاتھ میں ایک تسبیح اور وہ آواز ’’بھائی بلال…‘‘ پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تو موت نے اس کے سر پہ اپنے سیاہ پر پھیلا رکھے تھے ۔ میں نے روزانہ چالیس بار آیتِ کریمہ پڑھنے کا کہا ۔ ’’سینکڑوں مرتبہ ‘‘ اس نے تسبیح کی طرف اشارہ کیا ’’چالیس مرتبہ الگ ‘‘میں نے اصرارکیا ۔’’ آدمی یا تو جلدی صحت یاب ہو جاتا ہے یا اسے پڑھتا ہو اجنّت میں چلا جاتاہے ‘‘گنٹھیا کا مرض اس کی ہڈیاں کھا گیا تھا۔ کبھی کسی ڈاکٹر نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ جو ادویات وہ اسے دے رہے ہیں ، وہ گردوں کے لیے نقصان دہ ہیں ۔ آخری کارنامہ ایک حکیم نے کیا، جس کی دوا میں غالباً چاندی کے ورق تھے ۔ پھر بھی ، ابھی تو بہت وقت تھا۔ابھی تو ڈائلسز کا مرحلہ بھی نہ آیاتھا مگر اس نے چالیس بار آیتِ کریمہ پڑھنی شروع کی اور پڑھتے پڑھتے جنت میں چلی گئی۔ عیشا کبھی خاموش نہیں ہوتی۔’’الویشا کے بابابہت تیز گاڑی چلاتے تھے۔ ‘‘گھبرا کر میں نے سٹیئرنگ مضبوطی سے تھام لیا۔ ’’ہم ان کے گھر گئے تھے ۔ خون لگا ہوا تھا ۔ سب رو رہے تھے ۔ میں بھی رو رہی تھی ، الویشا بھی رو رہی تھی۔ حرا چپ کر کے بیٹھی ہوئی تھی ’’وہ زور سے ہنسی ۔‘‘آپ کو پتہ ہے ، جو لوگ برا بی ہیو (Behave)کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں دوزخ میں پھینک دیتے ہیں۔ جو اچھا بی ہیو کرتے ہیں انہیں جنّت میں ‘‘ اب یہ میرا پسند یدہ موضوع تھا’’تمہیں پتہ ہے ، جنت میں کیا ہوتاہے ؟ جنت میں پارک ہوتے ہیں اور ہر طرف جھولے لگے ہوتے ہیں’’’’مجھے پتہ ہے ‘‘اس نے بڑے جوش و خروش سے بتایا‘‘وہاں دودھ کے گھر بنے ہوتے ہیں ۔ وہاں …‘‘شاید وہ دودھ کی نہروں اور عالیشان محلات کا ذکر کرنا چاہتی تھی ۔ میں عیشا کو اس تلخ دنیا کے حقائق بتا نہیں سکتا تھا۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ سوشل میڈیا حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر دو حصوں میں منقسم ہے ۔ اسے ’’شہید‘‘قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں اور دونوں طرف سے گالیوں کا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے ۔ میں تو عیشا کو بتانا چاہتا تھا کہ ہم ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں ، جس کے سیاستدان خود غرض ہیں یا بے وقوف ۔ ہمارے وزیراعظم ڈرون حملے رکوانے کا مشن لے کر دنیا گھومتے ہیں لیکن وزیرِ داخلہ سینیٹ کو بتاتے ہیں کہ پچھلے دو برس میں ایک بھی بے گناہ شہید نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہے تو ڈرون رکوانے کا مطالبہ کون مانے گا؟ ( درحقیقت بے گناہوں کی ایک بڑی تعداد ان حملوں کا شکار ہوئی ہے اور حکومت کے اعداد و شمار درست نہیں )۔ عیشا کو میں بتانا چاہتا تھا کہ ہزاروں الویشائوں کے بابا کو قتل کرنے والے حکیم اللہ محسود کو بعض رہنما شہید سمجھتے ہیں ۔ ایک انٹرویو میں ایک رہنما کا مطالبہ یہ تھا کہ زیادتی کا شکا ر ہونے والی خواتین کے پاس اگر چار گواہ نہ ہوں تو انہیں پولیس کا رخ کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرنی چاہیے (کہ مجرم کی حوصلہ افزائی ہواور وہ کسی اور چادر کو آگ لگانے روانہ ہو ) ۔ مجھے زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے کو گواہ تسلیم کرنے کے خلاف مذہبی حلقوں کی مزاحمت یاد آئی ۔ عیشا کو میں اس قوم کے نوجوانوں کے لیڈر عمران خان کی کارکردگی سنا بھی دیتا تو وہ فقط ہنستی رہتی ۔ پاکستانی طالبان کے لیے انہوں نے ایک دفتر قائم کرنے کی بات کی ۔ طالبان نے شکریے سے انکار کیا ۔خاموشی اختیار کرنے کی بجائے خان صاحب اسی شدّ و مد سے اپنے مطالبے پر قائم رہے ۔ان کا وہ شیخ رشید کے جلسے میں جا شامل ہونامجھے یاد آیا ۔ تحریکِ انصا ف کے کئی سیاستدان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں مگر عمران خان طالبان کے خلاف کچھ بولتے ہی نہیں ۔ طالبان جمہوریت کو کفر کا نظام قرار دیتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ خود کو قیادت کے لیے پیش کرنے کی بجائے اگر امیدواروں کی نامزدگی پارٹی کی طرف سے ہو تو جمہوری نظام اسلام مخالف نہیں بلکہ اسلام کے عین مطابق ہوگا۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا کہ ہم مانگنے والوں کو منصب نہیں دیتے ۔ دوسری طرف حکیم اللہ محسود کی ’’شہادت ‘‘ کے بعد تحریکِ طالبان کی قیادت کے لیے مولوی فضل اللہ اورعمر خالد خراسانی سمیت 22سے زائد خواہشمند سامنے آئے ۔ فیصلہ کثرتِ رائے سے کیا گیا ۔ کیا واقعی وہ جمہوریت کو کفر کا نظام سمجھتے ہیں ؟ عام آدمی کی غلطی بھی نقصان دہ ہوتی ہے لیکن ایک لیڈر کی حماقت ؟ اور اس پر اصرار؟ خود میں نے بڑی ٹھوکریں کھانے کے بعد یہ سیکھا ہے کہ نقص عمل میںنہیں ، اندازِ فکر میں ہوتاہے ؛چنانچہ آدمی ایک ہی جگہ پہ بار بار پھسلتا ہے ۔فلسفی نے درست کہا تھا : زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ، فقط اسباق ہوتے ہیں ۔ اگر آدمی انہیں سیکھ لے تو ٹھیک ، وگرنہ وہ خود کو دہراتے چلے جاتے ہیں ۔ عیشا تو ابھی بچّی ہے ، ہمارے لیڈروں کو کیا ہوا؟