جھوٹ ، تلخ حقائق سے فرار ، بے حکمتی کے ساتھ احمقانہ دلاوری اور کاسہ لیسی ، یہ ہمارے لیڈرہیں ۔ صرف سیاسی نہیں ، مذہبی رہنما بھی وہی سچ بولتے ہیں ، جسے تائیدِ عامہ حاصل ہو۔ بعض ایسے ہیں کہ نازک ترین مسئلے پر فی الفور ایک رائے قائم کرتے ہیں اور پھر کسی قیمت پر اس سے رجوع پر تیار نہیں ہوتے ۔ اندر خانے مان بھی جائیں تو سرِ عام کبھی نہیں ۔ یہ لیڈر ہیں ؟ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار فرماتے ہیں کہ جلد پاکستان دنیا کی 11ویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس وقت 23ہزار ارب روپے جی ڈی پی کے ساتھ ہم 43ویں نمبر پر ہیں ۔ 11ویں نمبر پر کینیڈا ہے ، جس کی معیشت کا حجم دو لاکھ ارب روپے سے کچھ کم ہے ۔اس وقت جب چندماہ میں بجلی کی قیمتوں میں پچاس ، ساٹھ فیصد اضافہ ہے اور اگلے چند ماہ صنعتوں کو گیس کی فراہمی معطل رہے گی ،یوں زیادہ سے زیادہ تین، ساڑھے تین فیصد سالانہ ترقی ممکن ہے ۔ مزید سنیے ۔سابق عہد میں لیے گئے قرض کی واپسی کی کوئی صورت نظر نہ آرہی تھی ۔ معیشت دان انتباہ کر رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تباہ کن ہوں گی ۔ اس پر اعلان ہوا کہ ہم عالمی ادارے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے ۔ہم اپنی شرائط پر قرض لیں گے ۔ قرض مل گیا لیکن اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنا پڑا۔ ڈالر کے مقابل روپیہ 99سے 107پہ جاپہنچا۔ 60ارب ڈالر کے بیرونی قرض میں480ارب روپے کا اضافہ۔ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں گرانی اس کے علاوہ تھی ۔ آئی ایم ایف نے کل 6.6ارب ڈالر کا قرض عطا کرنا ہے ، جو مع سود لوٹانا ہوگا۔ غیر منافع بخش اداروں کی نجکاری بہرحال ضروری ہے لیکن کیا وہ ہمیں اپنی ترجیحات کے مطابق کرنی چاہیے یا عالمی ادارے کی خواہشات پر۔ ماضی میں ایسی ہی شرائط کے نتیجے میں بجلی پیدا کرنے اور تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے نتیجے میں بڑے ڈیم تعمیر کرنے کی صلاحیت ختم ہوئی ۔ تیل سے چلنے والے چھوٹے اور انتہائی مہنگے پلانٹ لگائے گئے ۔ کیا وزیرِ خزانہ قوم سے یہ کہنے کی استطاعت رکھتے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرائط ہمیں ماننا ہوں گی۔ ہمیں نقصان ہوگا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ؟کیا کسی نے یہ کہا کہ عالمی ادارہ طاقتور مغربی ممالک کے ایجنڈے پر کام کرتاہے ۔ یہ کہ پاکستان کو معاشی طورپر کمزور رکھا جائے ۔ ، سو ، دو سو ارب روپے کے عوض اس کا غیر مشروط تعاون حاصل کیا جائے ۔ عمران خان کی سچائی کا زمانہ معترف ہے ۔ پرویز مشرف کی حمایت پر انہوںنے قوم سے معافی مانگی اور یہ بڑی اخلاقی جرات کا مظہر ہے۔ سوات اور وزیرستان میں فوجی آپریشن کی انہوںنے سخت مخالفت کی ۔ اس پر ان کے ساتھ مباحثے ہوئے تو نجی محفلوں میں وہ مان گئے کہ ان کا موقف غلط ہے اور اس کے گواہ موجود ہیں۔ عوامی اجتماعات میں پھر بھی ڈٹ کر مخالفت کرتے رہے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوںنے شکوہ کیا کہ جب بھی طالبان سے مذاکرات کی بات ہوتی ہے ، ڈرون حملہ کر کے ان کا اعتماد توڑ دیا جاتاہے ۔ اس پر سوال کیا گیا کہ کیا جنرل نیازی اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر کے ہمارا اعتماد نہیں توڑا گیا؟ فورا ہی انہوںنے پینترا بدلا اور کہا کہ ابھی تو مذاکرات کا آغاز ہوا تھا اور نہ جنگ بندی۔ وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف الیکشن سے قبل یہ اعلان کرتے رہے کہ چھ ماہ میں بجلی کا مسئلہ حل کر دیا جائے گا ۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے بعد میں اسے جوشِ خطابت قرار دیا۔ خواجہ سعد رفیق بلٹ ٹرین چلا نے کا وعدہ کیا کرتے تھے ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں مایوسی سے وہ یہ کہتے پائے گئے کہ ہمیں تو لاگت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ وہ تو بعد میں ہم چینیوں کے ساتھ بیٹھے تو ہمیں معلوم ہوا ..... ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی نے سچ بولنے کی جرات کی؟ ایک بے گناہ خاتون کو پاکستان کے اندر سے اغوا کر لیا گیا؟ اس احمقانہ مہم جوئی سے امریکی کیا حاصل کر سکتے تھے ؟ یہ بات البتہ درست ہے کہ ان کے ساتھ نہایت غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک کیا گیا ۔ جنسی اور جسمانی تشدد، اولاد کی گمشدگی اور پھر 86برس قید۔ پھر وہ ہیں ، جو جلد بازی میں رائے قائم کرتے ہیں اور پھر دماغ کے دروازے بند۔ نیٹو سپلائی بند کر دینی چاہیے۔ کیا ہم افغانستان سے امریکی انخلا روکنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکی ہمارے پڑوس میں اسلحے کے پہاڑ تعمیر کر جائیں؟ بعض غیر ذمہ دار مبصر ایسی ’’معصوم‘‘ خواہشات بیان کرتے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ فوج حکومت کا تختہ الٹ کیوں نہیں دیتی ؟ مثلاً یہ کہ الیکشن ہوئے تو ملک ٹوٹ جائے گا؟ الیکشن سے ملک ٹوٹے گا یا انتخابی عمل سے فرار سے؟ ڈرتے کیوں ہو ،اللہ کے بندو؟ سچ کیوں نہیں بولتے ؟ بتاتے کیوں نہیں کہ مسائل ہیں اور ہم یہ اقدام اٹھار ہے ہیں اور اتنا وقت لگے گا۔ تقرریاں میرٹ پہ کیوں نہیں کرتے اور اہل افراد کو آزادی کیوںنہیں دیتے؟سابق او رموجودہ حکمران اپنے پیسے کیوں واپس نہیں لاتے؟اپنی رعایا سے معافی کیوں نہیں مانگتے ؟ وہ تمہارے پائوں چومے گی ۔ سچ اور خلوص میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔بہت سے لیڈر اپنے تضادات کی بھینٹ چڑھ چکے ۔ باقی اجتماعی خود کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ایک عظیم الشان خلا جنم لے رہا ہے ، جس میں نئی قوتیں ابھریں گی ۔ تم سب اپنی حماقتوں ، جھوٹ ، منافقت اوراپنے خوف کے نیچے دفن ہو جائو گے۔ اگر خود کو اس قابل نہیں پاتے تو لوٹ کیوں نہیں جاتے ؟ یہ کس نے کہا کہ ایسی لیڈری کرو جس کا عوام کو فائدہ ہو نہ ملک کو؟