"FBC" (space) message & send to 7575

آنے والا دور

سر اظہار الحق نے اپنی ایک تحریر میں ٹیکنالوجی کی اہمیت واضح کی تھی ۔ اس میدان میں بالادست اقوام کمزوروں کو کچل کے رکھ دیتی ہیں۔ ایک طویل عروج کے بعد ہم مسلمان عیش و عشرت کی وادیوںمیں بھٹکنے لگے ۔اپنی مختصر سی تاریخ میں پاکستان معاشی طور پر کمزور ہی رہا (اگرچہ ہمارے بے انتہا قیمتی ذخائر چند دہائیوں میں حالات بدل سکتے ہیں )لیکن ہم نے شاندار فوج ، میزائل اور ایٹمی پروگرام تشکیل دیا۔ دوسرے مسلم ممالک ، خاص طور پر عرب اس فتنے میں جکڑے ہوئے ہیں ، جس سے نبی آخر الزماںؐ نے خبردار کیا تھا۔ دولت کی چکا چوند نے ان کی آنکھیں چندھیا دی ہیں ۔ وہ اللّے تللّے کرتے ہیں اور رمضان المبارک میں مسجد نبویؐ میں فریاد۔ ''اللھم علیک الیھود‘‘اے اللہ، تو یہود کو برباد کر دے۔ ''یارب یارب‘‘خدا نے انہیں تیل کی دولت سے مالا مال کیا۔ اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ بادلوں کے سائے میں اللہ زمین پر اتر آئے اور یہود سے جنگ کرے ۔ایران ان سے بہت آگے ہے۔ اس نے جوہری ہتھیار بنانے کی بھی سر توڑ کوشش کی ۔ بدترین پابندیوں سے معاشی ترقی کی رفتار منفی ہو گئی اور اب اس باب میں وہ شکست تسلیم کرنے پر آمادہ ہے۔ برسبیلِ تذکرہ، جب تک دنیا
کی کوئی ایک بھی قوم ایٹمی ہتھیار رکھتی ہے ، دوسروں کو منع کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ۔( بزورِ بازو البتہ روکا جا سکتاہے )۔غلط یا صحیح ، عرب ممالک نے ایران کی پیش قدمی کو اپنے لیے خطرہ جانا۔ خود انہوںنے اس فیصلہ کن جنگ کی تیار ی نہیں کی،اسرائیل کی صورت میں جو جلد ان پر مسلّط ہونے والی ہے ۔ 
دنیا اب بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ چند ہفتے قبل ایک مضمون لکھا تھا ''محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘نینو ٹیکنالوجی اور تھری جی پرنٹر جیسی ایجادات ۔ دوسری طرف خدائی ذرّے (ہگز بوسون) کی دریافت سے ایسا لگتاہے کہ اگلی ایک آدھ صدی میں کائنات کے بڑے راز ہم پر منکشف ہونے والے ہیں ۔اسی ذرّے نے کائنات کی ابتدا میں مادے کو اپنی موجودہ شکل اختیار کرنے میں مدد دی ۔ کائنات کو پھیلانے، ہرکہکشاں کی رفتار پر اثر انداز ہونے اور اسے جوڑے رکھنے والا ڈارک میٹر (Dark Matter)، شاید سب سے اہم راز ہے ۔ بچپن میں وہ جو ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ کائنات کی تمام اشیا چھوٹے چھوٹے ایٹموں سے مل کر بنی ہیں ، غلط ثابت ہو چکا۔ درحقیقت 96فیصد کائنات نادیدہ ڈارک میٹراور ڈارک انرجی پر مشتمل ہے ۔ یہ سب بے حد اہم ہے لیکن مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)کا ذکر میں بھول گیاتھا ۔ نینو ٹیکنالوجی کی طرح ، اسے بھی بلا شک و شبہ انسانیت کا مستقبل قرار دیا جاسکتاہے ۔ 
کمپیوٹر کی یہ صلاحیت کہ ڈیٹا کی بنیاد پر سوچ سمجھ کر وہ خود سے فیصلہ کر سکے ۔ اپنے موبائل فون میں اس کے چھوٹے موٹے استعمال ہم دیکھتے رہتے ہیں لیکن آنے والے ماہ و سال میں بہت بڑی حیرتیں چھپی ہیں ۔ 1997ء میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے آئی بی ایم کے پروگرام Deep Blueنے شطرنج کے عالمی فاتح گیری کیسپیروو کو ہرا دیا اور اب اپنی تمام ذہانت آزما کر بھی ہم انتقام نہیں لے سکتے ۔ ذہین کمپوٹر اب تبادلہ ء خیال ، بحث اور منصوبہ بندی کر سکتاہے ۔ وہ نئی چیزیں سیکھ سکتاہے اور یہاں بات ختم ہو جاتی ہے ۔ 
جاپان کا مایا ناز روبوٹ آسی مو ۔ وہ بھاگ سکتاہے ، ڈھکن کھول سکتاہے ، چہرہ شناخت کرتا اور کئی آوازیں اکٹھی سنتاہے ۔ بات سمجھ نہ آئے تو دہرانے کی درخواست ۔ کھانے پینے کی اشیا اٹھالاتاہے ۔ہاتھوں سے لمس محسوس کرتاہے ۔ وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔ گھروں میں ملازم کی خدمات وہ پہلے سے انجام دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے فوکو شیما جوہری پلانٹ میں تباہی ہوئی اور انسانوں کا جانا خطرناک قرار دیا گیا توجاپانیوں کا اصرار یہ تھا کہ آسی مو سے مدد لی جائے لیکن وہ اس لیے نہ بنایا گیا تھا۔ تصویریں بنا کر اس نے تباہی کا پیمانہ ضرور واضح کیا۔ 
فوکو شیما کے حادثے میں روبوٹ سے مدد لینے کے تصور ہی سے امریکیوں کی آنکھیں کھلیں ۔ ہمیشہ کی طرح ان کی ریاضت ایک بار پھر جنگ پر ہی مرتکز رہی ۔ ایسی مشینیں ، جو دشمن کو نیست و نابود کرسکیں ۔ چار ٹانگوں والے ایسے روبوٹ جو میدانِ جنگ میں ٹنوں وزن اٹھائیں ۔ وہ بھی جو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دشمن پر حملہ آور ہوں ۔ جاپانی بہرحال بہت آگے ہیں۔ چھ ٹن وزنی اور دس بارہ فٹ لمبی ایک مشین، جس کے اندر بیٹھ کر وہ لڑ سکتے ہیں۔ 
مصنوعی ذہانت والے روبوٹ اب حیران کن توازن رکھتے ہیں ۔ وہ دھکّا دینے پر گرتے نہیں ۔ وہ گڑھے عبور کرتے ہیں اور تنگ جگہ سے گزر سکتے ہیں۔سیکھنے کی ان کی صلاحیت کی وجہ سے انہیں طب اور تاریخ سکھائی جا سکتی ہے ۔ ایک روز وہ ہمارے استاد اور ڈاکٹر کا کردار ادا کریں گے ۔ اب خود اپنے آپ کو دیکھیے ۔ سچ تویہ ہے کہ چالیس ہزار برس قبل ہمیں بھی مصنوعی ذہانت ہی سے نوازا گیا تھا۔دماغ میں ایک ذرا سے اضافے اور اس کے مختلف حصوں میں دوسروں کی نسبت بہتر ربط نے ہمیں کیا سے کیا بنا دیا ۔ دو ننھے قطروں کے ملاپ سے پیدا ہونے والا ہمارا وجود اور ہمارا دماغ بڑھتا ہے ۔ خود پر ذرا غور تو کیجیے۔ 
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی 
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں