میں ڈاکٹر ہنری مارکرم ہوں۔ مئی 2005ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں شروع ہونے والے بلیو برین پراجیکٹ (Blue Brain Project)کا سابق سربراہ ۔اگست 2005ء میں طب کی دنیا میں تہلکہ مچا دینے والا ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔ سوسن ٹورس نامی اُس امریکی خاتون نے ایک بچے کو جنم دیا ، جو تین ماہ سے مشینوں کے بل پر زندہ تھی ۔ جی ہاں ، اس کا دماغ تین ماہ قبل ہی مر چکا تھا۔دوبارہ اٹھ بیٹھنا تو کجا، اب وہ انگلی ہلانے کے قابل بھی نہیں تھی لیکن مصنوعی طور پر اسے سالہا سال زندہ رکھا جا سکتا تھا۔ اخلاقی طور پر شایدیہ بات کرنا مناسب نہ ہو لیکن طبّی طور پر وہ مزید بچوں کو بھی جنم دے سکتی تھی ۔
مختلف جسمانی اعضا کی کارکردگی ہم سائنسدانوں کے لیے حیرت کا باعث نہیں ۔ دل خون کو حرکت میں رکھنے والا ایک پمپ ہے ، جس کے ذریعے خوراک اور آکسیجن ہر خلیے تک پہنچتی ہے۔ پھیپھڑے ہوا سے آکسیجن کشید کرتے ہیں ۔ معدے اور گردوں کی ذمہ داریوں سے سب واقف ہیں ۔ خون کا بہائو ان سب کی کارکردگی کے لیے لازم ہے اور یہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ہر عضو کے ذمے ایک آدھ کام ہے لیکن دماغ کے افعال گننا ممکن نہیں ۔ اُس کے حکم پہ دل اپنی رفتار کا تعین کرتاہے ۔پھیپھڑے اسی کے اشارے پہ پھیلتے سکڑتے ہیں۔ آنکھ تصویر بنا کر دماغ کے حضور پیش کرتی ہے ۔ کان آواز سننے کے لیے اسی کے محتاج ہیں۔ وہی جسم کا توازن برقرار رکھتا ہے ۔ سوچ، جذبات، خواب...دماغ، دماغ اور صرف دماغ!وہ بادشاہ ہے ، باقی سب غلام ۔
ٹیکنالوجی اور طب میں بڑھتی مہارت نے وہ دن بھی دکھایا کہ سینوں میں مصنوعی دل نصب کیے جانے لگے ۔ جلد یا بدیر باقی اعضا بھی بن جانے تھے بلکہ نسبتاً کم پیچیدہ تو باقاعدہ اُگائے جا رہے تھے ۔ ہم سب اعضا کو پوری طرح سمجھ چکے تھے لیکن دماغ کا ذکر ہوتا تو خاموش ہو جاتے ۔ مختصر الفاظ میں اسے ایک انتہائی طاقتور ، خود بخود سیکھنے والا ، خود اپنی اصلاح کرنے اور قلیل ترین توانائی استعمال کرنے والا کمپیوٹر کہا جا سکتاہے۔ہم جانتے تھے کہ جس دن ہم نے دماغ میں چھپے اسرار پا لیے ، دنیا بدل جائے گی اور ایک دن وہ بدل گئی۔
سوسن کے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ بحث چھڑ تی رہی تھی کہ موت کا تعین کیسے کیا جائے؟جب دل دھڑکنا بھول جائے یا دماغ چپ سادھ لے ؟ ہم سائنسدان روح پہ تویقین نہیں رکھتے۔بہرحال دل پہلے ہی مصنوعی طورپر بنائے جا رہے تھے۔ بلیو برین پراجیکٹ کی صورت میں اب وقت آگیا تھا کہ دماغ کی پراسراریت سے پردہ اٹھادیا جائے ۔ اس منصوبے کے تحت ہمیں لیبارٹری میں مصنوعی انسانی دماغ بنانا تھا۔ جی ہاں ، سو ارب خلیوں پر مشتمل ایک انسانی دماغ ۔ ساتھ ہی ساتھ دماغ کے کام کرنے کا طریقہ(Working)کمپیوٹر پر دکھایا جانا تھا۔اسے (Computer Simulation) کہتے ہیں ۔
دماغی سائنسدان ، ڈاکٹر،طبعیات دان، ریاضی دان ، کمپیوٹر انجینئرز ، دنیا کے 135اداروں کے اعلیٰ اذہان میری قیادت میں سر جوڑ کر بیٹھے ۔ تمام تر ترقی کے باوجود ،ہماری ٹیکنالوجی اس قدر فرسودہ تھی کہ دماغ کے ایک خلیے کا حساب رکھنے کے لیے ایک لیپ ٹاپ درکار تھا ۔کمپیوٹر بنانے والی کمپنی آئی بی ایم کے بلیو جین نامی سپر کمپیوٹر نے مسئلہ حل کیا ،جس کے اندر دس ہزار پروسیسرز (Processors)تھے۔ یاد رکھیے کہ سب سے بڑا سُپر کمپیوٹر خود انسانی دماغ ہے ۔ جب لیبارٹری میں انسانی دماغ کی نقل تیار کر لی جاتی اور اس کا ایک عشرِ عشیر بھی نئی ایجادات کو نصیب ہوتا تو تہلکہ مچ جانا تھا۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)کے پیمانے سرے سے بدل جانے تھے۔ ٹیکنالوجی کو نئی سمجھ بوجھ ملنے والی تھی ۔
ہم متوازی طور پر ایک چوہے کا دماغ بھی بنا رہے تھے اور وہ انسانی دماغ سے ہزار گنا سادہ تھا۔ بلیو برین پراجیکٹ پر تنقید بھی ہوئی لیکن 2008ء میں دس ہزار خلیات پر مشتمل ،چوہے کے دماغ کا ایک چھوٹا سا حصہ بنا کر دکھادیا گیا۔ 2014ء میں دس کروڑ خلیات پر مشتمل چوہے کا مکمل دماغ اور 2023ء میں سو ارب خلیات پر مشتمل انسانی دماغ تیار ہونا تھا اور ایسا ہی ہوا۔ دماغ اپنی تمام تر عیاری سمیت ہمارے سامنے بے نقاب ہو چکا تھا۔ تمام کامیابیاں سمیٹنے کے بعد ،2025ء میں ، میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گیا۔ رفتہ رفتہ دنیا بدلنے لگی۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ دماغی بیماریوں کا شکار تمام افراد صحت یاب کر دیے گئے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوا۔
ذہین ٹیکنالوجی کی صورت میں دوسرا انقلاب رونما ہوا۔گاڑی میں بیٹھ کر اب ہمیں صرف منزل کا نام لینا ہوتا تھا ، باقی سب فیصلے ہم اس میں نصب چھوٹے سے مصنوعی دماغ پر چھوڑ دیتے ۔ روبوٹ کی صنعت کا حال اس سے قبل یہ تھا کہ صرف توازن حاصل کرنے کو ایک عظیم کامیابی قرار دیا جاتا تھا۔ اب وہ سودا سلف لانے سے لے کر جنگیں لڑنے تک ،ہمارے اشارے پر ہرخدمت بجا لانے لگے ۔ وہ اپنی مرمت کا کام بھی خود انجام دیتے تھے ۔ظاہر ہے کہ تمام مشینوں کے اذہان میں مالک سے وفاداری کے جذبات پہلے ہی سمو دیے جاتے تھے ۔ پھر ہر ایک کو اتنی محدود سی صلاحیت ہی دی جاتی تھی ، جتنی انسانوں کے لیے مفید ہو۔یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن پھر کچھ عجیب سے مسائل پیدا ہونے لگے ۔
سب سے پہلے مصنوعی ذہانت سے لیس کچھ کاروں کے حادثات ہوئے ، جو بظاہر ناممکن تھے ۔ انسان لاپرواہی اور غفلت کا شکار ہوتا ہے لیکن مشین ایسا کیوں کرے گی ؟ انہیں کسی نا معلوم خرابی کا شاخسانہ قرار دے کر بھلادیا جاتا لیکن وہ بڑھتے چلے گئے ۔ پھر کئی ممالک میں زیادہ ذہین کمپیوٹر ایک دوسرے کو ایسا ڈیٹا اور برقی اشارے بھیجتے پائے گئے ، جس کا کوئی جواز ابھی تک نہیں مل سکا...اور میرے ذاتی روبوٹ کا روّیہ بھی بعض اوقات بدل جاتاہے ۔ کل صبح میں نے اسے لیپ ٹاپ لانے کا حکم دیا تو پورے تیس سیکنڈ تک وہ ساکت کھڑا رہا۔ اپنی کیمرہ نما آنکھوں سے جیسے وہ مجھے گھور رہا تھالیکن یہ کیسے ہو سکتاہے ؟ کیا ہم نے غلطی سے انہیں کچھ زیادہ صلاحیت سونپ دی ہے ؟ کیا وہ وفاداری کے جذبات کو مٹانے کے قابل ہو چکے ہیں ؟ کیا مشین انسان کے خلاف سازش کر رہی ہے ؟؟؟
نوٹ: بلیو برین پراجیکٹ ایک حقیقت ہے ۔ یورپی یونین کے تعاون سے سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ 2023ء میں ممکنہ طور پر یہ مکمل ہوجائے گا۔ ابتدائی طور پر چوہے کے دماغ کا ایک حصہ بنا لیا گیا ہے ۔