آنکھ کھلی تو بے اختیار میں نے سرپہ ہاتھ پھیرا۔ حیرت انگیز طور پر کسی زخم کا نام و نشان تک نہ تھا۔ تین ماہ پہلے میرے دماغ میں جس رسولی کا انکشاف ہوا تھا ، آج اُسے نکالا جانا تھا۔ آپریشن تھیٹر لے جاتے وقت میرے اہلِ خانہ کے آنسو ، حتیٰ کہ بے ہوش کیے جانے سے پہلے کے سب لمحات مجھے اچھی طرح یاد تھے ۔یا للعجب، میں خود کو ہوا کی طرح ہلکا پھلکا محسوس کررہا ہوں اور یہ جگہ بھی کیسی عجیب و غریب ہے ۔اپنے تئیں میں شہر کے چپّے چپّے سے واقف ہوں لیکن یہ زمین انجان اور آسمان اجنبی ہے... میں چلنے لگا، چلنے کیا، ہوا میں تیرنے لگا۔
سڑک کنارے اب وہ دراز قامت آدمی نظر آیا تو میں اس کی طرف لپکا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ ہمدردی اور رہنمائی کی بجائے، وہ اتنا ہنسا کہ اُس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ ''میرے شہزادے‘‘اس نے بمشکل یہ کہا ''تم مر چکے ہو اور یہ عالمِ ارواح ہے‘‘
قریب کوئی پتھر پڑا ہوتا تو میں اُس کے سر پہ دے مارتا اور واقعتاً اسے عالمِ ارواح پہنچا دیتا لیکن پھر میں نے صبر کیا ۔ دورجو سبز اور سفیدرنگ کی عمارت نظر آرہی تھی ،میں اس کی طرف چل پڑا۔ ''کیا ہند کے مسلمانوں نے اپنا الگ ملک بنا لیا ہے ؟‘‘صحن میں ایک سفید گھنی داڑھی اور سرخ ٹوپی والے فربہ سے شخص نے مجھے دیکھ کر آواز لگائی ۔ میں نے اسے بتایا کہ پاکستان 65برس قبل ہی بن گیا تھا اور میرے آپریشن سے قبل تک کوئی اورنیا ملک تو نہیں بنا تھا۔ ''مسلم برّصغیر کی علمی حالت کیسی ہے ؟‘‘اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے دوسرا سوال کیا۔ بمشکل جان چھڑاکے میں آگے بڑھا۔اندر ہی اندر میں سوچ رہا تھا کہ ْاس کاچہرہ سر سیّد احمد خان سے کس قدر مشابہ ہے ۔ خیر ، اللہ کا نام لے کر اب میں نے پہلے کمرے میں جھانکا۔ صوفے پر بڑے نفیس پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک دبلا پتلا شخص سگار پی رہا ہے ۔میں نے غور سے دیکھا اور اپنی جگہ ساکت ہو گیا۔ کوئی اور نہیں ،وہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے ۔ دوسرے آدمی کا چہرہ دیکھنے سے میں قاصر تھا۔ پہلی بار مجھے لگا کہ شاید واقعی میں مر چکا ہوں لیکن زندگی اور موت کی اب کسے پروا تھی ۔ میں جیسے پانی کی طرح بہہ کرقائد کے حضور جا کھڑا ہوالیکن وہ اپنے ہم نشیں سے اسی طرح محوِ کلام رہے :
''ہمیں شروع ہی سے ادراک تھا کہ ایک ایسا پاکستان ، جس کے دو حصوں کے درمیان بھارت آباد ہو، غیر معمولی اتفاق اوریگانگت کا مطالبہ کرتا ہے ۔ ایسے میں ذرا سا احساسِ محرومی بھی زہرِ قاتل ثابت ہوتا۔ خیر، آج کا پاکستان ترنوالہ نہیں ۔عوام ہمیشہ سے زیادہ با شعور اور متحرک ہیں ۔ میڈیا اور عدالتیں آزاد ہیں ۔ ایسے میں فوجی مداخلت کی بجائے،نئی سیاسی قوتیں ناکارہ اور بددیانت سیاست دانوں کی جگہ سنبھال لیں گی۔‘‘اب سامنے بیٹھا شخص بول پڑا۔ ؎
جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی ، اسی کا مشتاق ہے زمانہ
میں نے گردن گھمائی اور علامہ اقبالؔ کو دیکھ کر میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔
''پاکستان محفوظ ہے‘‘قائد اعظم نے کہا ''مضبوط فوج ، میزائل اور ایٹمی پروگرام کے ہوتے ہوئے عسکری طور پر کوئی خطرہ نہیں ۔ صرف ٹیکس وصولی کا نظام درست کرنا ہوگا ۔ پولیس سے سیاسی رسوخ کا خاتمہ ، بہتر تربیت اور انٹیلی جنس کا نظام ٹھیک کرنا ہوگا۔ جہاں تک قبائلی علاقے بالخصوص شمالی وزیرستان کا تعلق ہے ، مناسب وقت پر فوج دہشت گردوں کو کچل کے رکھ دے گی‘‘
''جناب ‘‘میں صرف اتنا ہی کہہ سکا ''میں نے کچھ بہت متقی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ محمد علی جناح انگریز کے ایجنٹ تھے اور یہ کہ وہ کسی گمراہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے‘‘ مجھے خوف تھا کہ قائد اعظم بھڑک اٹھیں گے لیکن کہا توفقط یہ کہا ''میں خدا اور اس کے رسولؐ پہ ایمان رکھتا ہوں اور مجھے کوئی سند درکار نہیں ‘‘
''دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد‘‘علّامہ اقبال ؔ نے کہا ۔ اتنے میں قائد اعظم چونک پڑے''کیا تم نے ملاقات کا وقت طے کیا تھا؟‘‘انہوں نے سختی سے پوچھا۔ علّامہ زیرِ لب مسکرانے لگے ۔ میں الٹے قدموں باہر نکلا اور دوسرے کمرے میں جھانکنے لگا۔او خدایا، یہاں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق ایک دوسرے کو کینہ توز نگاہوں سے گھور رہے ہیں ۔''جنرل‘‘بھٹو نے گرج کر کہا ''تم ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور میرے عدالتی قتل کے مجرم ہو۔ تمہارے دور میں منشیات اور اسلحہ عام ہوا‘‘
''تم شیخ مجیب الرحمن سے نصف نشستیں لینے کے باوجود اسے انتقالِ اقتدار کی راہ میں روڑے اٹکانے میں شریک رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بنگالی آج بھی مر رہے ہیں ۔ ''ضیا الحق نے کہا‘‘فوج کو جب مظاہرین پہ گولیاں برسانے کا حکم دیا جائے تو حقِ حکمرانی خود بخود ختم ہو جاتاہے ۔ سویت یونین آدھا یورپ ڈکار چکا تھا۔ پاکستان اور بھارت میں اس کے تنخواہ دار انقلابی دندنارہے تھے۔ افغانستان پہ اس کا اقتدار مستحکم ہو جاتا تو پاکستان پہ حیات تنگ کر دی جاتی ۔ پھر دنیا بھر کی اقوام اس جہاد میں ہماری پرجوش حامی تھیں‘‘ ان دونوںکی آوازیں بلند ہونے اور تیور بگڑنے لگے تو میں آگے بڑھ گیا۔ ایک کمرے میں مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو نظر آئیں۔ ان کے مظلومانہ قتل کے باوجود سرے محل، سوئس مقدمات ، بدعنوانی کے دوسرے الزامات اور وکلا تحریک کے ہنگام پرویز مشرف سے ڈیل کی وجہ سے میں کبیدہ خاطر تھا؛ لہٰذا آگے چل پڑا۔
آخری کمرے میں حکیم اللہ محسود کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ میرے استفسار سے پہلے ہی وہ بول اُٹھا ''اسلام امن و آشتی اور علم کی راہ دکھاتاہے ۔مسلّح جدوجہد کی بجائے، ہمیں تعلیم و تربیت کی راہ اختیار کرنی چاہیے تھی ۔ دشمنوں میں گھری ایک خود مختار اسلامی ریاست میں سیاسی جدوجہد بہترہوتی‘‘ اس نے گلوگیر لہجے میں کہا ''لیکن اب کیا ہو سکتاہے؟‘‘ ''خان یہ آخری کمرہ ہے ‘‘میں نے کہا ''لیکن جنرل ثناء اللہ نیازی کہیں نظر نہیں آئے‘‘ ''ارے‘‘وہ عجیب سے انداز
میں ہنس پڑا ''وہ مرا نہیں ، زندہ ہے‘‘
میں حیرت سے اُس کا منہ تکتا رہ گیا۔