"FBC" (space) message & send to 7575

وہ مبارک رات

ایک طرف یہ انقلاب برپاتھا اور دوسری طرف مملکتِ خداداد کے شہری دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھے تھے۔ عشروں کی بدحالی کے بعد معیشت حیرت انگیز تیزی سے سنبھلی تھی ۔ 15ہزار ارب روپے کے اندرونی و بیرونی قرضوںمیں بتدریج کمی آرہی تھی ۔بجلی اور گیس کا بحران آخر کار ختم ہونے کو تھا ۔نہ صرف بد امنی کا عفریت موت کے گھاٹ اترچکا تھا بلکہ افغانستان میں محدود امریکی افواج کی موجودگی کے باوجود ڈرون حملے ختم ہو چکے تھے ۔حکومتی سرپرستی میں زمین کا سینہ چیر کر جب قیمتی معدنیات کے نمونے دکھائے گئے تو دنیا بھر سے سرمایے نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔ یہی نہیں ،سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی پالیسیوں پر تنقید ضرور کرتی تھیں لیکن ذاتیات سے ماورا ہوکر۔ پیپلز پارٹی ، تحریکِ انصاف اور نون لیگ کی صوبائی و مرکزی حکومتیں اب صرف کارکردگی کے میدان میں نبرد آزما تھیں ۔ سادہ لوح عوام اس عظیم تبدیلی کو ایک خدائی معجزہ قرار دے رہے تھے ۔ وہ بے چارے اُس شب دارالحکومت کے نواح میں خاموشی سے برپا ہونے والے اجلاس سے بے خبر تھے۔ عسکری اور سیاسی قیادت ملک کے عظیم اذہان کے ساتھ نہایت رازداری کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھی تھی اور وہ بھی اس وقت جب اٹھارہ کروڑ عوام لمبی تان کر سو رہے تھے ۔
تمام نگاہیں وزیراعظم پہ مرتکز تھیں ، جب انہوںنے خطاب شروع کیا ''ہم سب کی عشروں کی غلطیوں نے وطنِ عزیز کو اس موڑ پہ لا کھڑا کیا ہے کہ تباہی و بربادی ہماری منتظر ہے۔اربابِ سیاست ہی نہیں ، اب جمہوریت طعنہ زنی کا شکار ہے ۔کہیں اشتراکی انقلاب کا نعرہ ہے اور کہیں خلافت کے نام پر لیڈری چمکائی جا رہی ہے ۔ایسی کسی کوشش کو بڑے پیمانے کی عوامی تائید میسر آئی تو ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ جائے گا۔تب کوئی یہ سوچے گا کہ چند حکومتی کارپوریشنیں نہ سنبھال سکنے والی حکومت تمام ذرائع پیداوار قومیا کر کیونکر کامیاب رہے گی اور نہ یہ کہ نجی شعبے کی ذہانت اور تعاون کے بغیر دیرپاترقی کا حصول کیسے ممکن ہوگا۔تب خلافت کے حامیوں کو کوئی یہ نہ بتائے گا کہ اسلام‘ جمہوریت سمیت کسی مفید ایجاد یا نظام کے خلاف نہیں ۔ اسلامی شریعت کے نزول کے وقت ذرائع آمدرفت اور ذرائع ابلاغ اس قدر سست رفتار تھے کہ ملک گیر عوامی رائے سے حکومت کی تشکیل ممکن ہی نہ تھی۔ایسی ہر کوشش کا انجام یہ ہوگا کہ کئی دہائیاں گنوا کر ملک پھر جمہوریت کی طرف لوٹے گا لیکن تب تک ہم سب تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکے ہوں گے۔پھر یہ کہ اس افراتفری اور فساد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی قوتیں ہمارے ایٹمی اثاثے ہتھیاسکتی ہیں اور ایسی صورت میں بھارت خاموش نہ بیٹھے گا۔ آج ہم ریاست کو درپیش مسائل سے نمٹنا چاہتے ہیں لیکن صورتِ حال اتنی گمبھیر ہے کہ اپوزیشن کے خوش دلانہ تعاون اور شرکت کے بغیر یہ ممکن نہیں‘‘۔ 
اب عمران خان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ''جنابِ وزیراعظم ہم حکومت سے مکمل تعاون،حتیٰ کہ عام انتخابات میں دھاندلی پر اپنے تحفظات بھلانے کو تیار ہیں ۔ شرط یہ ہے کہ آئندہ الیکشن کے لیے ایسا کمپیوٹرائزڈ نظام بنانے کے لیے آج ہی سے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے ، جس میں دھاندلی ناممکن ہو۔ یہ بھی کہ کارکردگی کے بل پر عالمی سطح پر اپنے ادارے کا لوہا منوانے والے چیئرمین نادرا کو ان کے عہدے پر بحال کر کے یہ ذمہ داری سونپی جائے‘‘۔ وزیراعظم کو اثبات میں سر ہلاتا دیکھ کر وہ بیٹھ جاتے ہیں۔ 
''قومی مفاد میں آج ہم بھی تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں‘‘ اسفند یار ولی خان پہلی دفعہ گفتگو میں شریک ہوتے ہیں ''لیکن اسے اپنی بعض پالیسیوں پہ نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ اب جب کہ امریکہ افغانستان سے لوٹ رہا ہے تو نیٹو سپلائی روکنے سے اس انخلا میں رکاوٹ پیداکرنا مناسب نہیں‘‘۔ ''ڈرون حملے...‘‘ عمران خان کچھ کہنے لگتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن قطع کلامی کرتے ہیں ''شمالی وزیرستان اُن کا ہدف ہے ۔ نہ صرف یہ کہ علاقے میں حکومتی رِٹ قائم کرنا ہوگی بلکہ سرحد پار آمدورفت کا خاتمہ بھی۔ اس کے بعد عالمی میڈیا کے سامنے اپنی یہ کامیابی ثابت کر دی جائے تو ڈرون حملے خودبخود رک جائیں گے‘‘۔ 
شمالی وزیرستان میں رِٹ قائم کرنے کے سوال پر تمام نظریں جنرل راحیل شریف پر مرکوز ہو گئیں۔ ''ہمارے اعلیٰ تربیت یافتہ جوان زیادہ سے زیادہ چند ہفتے میں دہشت گردوں کو مار بھگا سکتے ہیں‘‘۔ آرمی چیف گویا ہوتے ہیں ''سوات اور جنوبی وزیرستان میں ہم یہ ثابت کر چکے ہیں ۔ فوج سیاسی حکومت کے احکامات پہ عمل درآمد کی پابند ہے‘‘۔ 
پھر سابق صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم ، تینوں کی یہ متفقہ رائے ظاہر کی کہ مذاکرات کی تمام کوششوں کے باوجود تحریکِ طالبان اپنے حملے اسی سفاکی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس طرزِ عمل سے صاف ظاہر ہے کہ وہ بات چیت چاہتی ہی نہیں ۔ تمام جماعتوں کی مشاورت سے وزیراعظم نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک ماہ کے اندر اگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی تو فیصلہ کن کارروائی ہوگی ۔ یہ اجلاس ساری رات جاری رہا ۔ ملک کے نامور ماہرین اور سائنسدانوں سے معیشت اور دیگر شعبوں میں ترقی کے لیے آرا طلب کی گئیں ۔ وزیراعظم نے یہ اعلان کیا کہ جلاوطنی کے دوران انہوںنے مختلف ممالک میں جس کاروبار کا آغاز کیا تھا، اسے پاکستان منتقل کیا جائے گا۔ ان کی پیروی میں ساری سیاسی قیادت نے اپنے اثاثے ملک واپس لانے کا وعدہ کیا۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ان تین ملین ٹیکس چوروں کا محاسبہ کیا جائے گا، جن کی فہرست نادرا کے پاس موجود تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ آنے والے برسوں میں معیشت تیزی سے سنبھلنے لگی تھی ۔ 
قارئین جس اجلاس کا آنکھوں دیکھا حال میں نے بیان کیا ہے ، وہ جنوری 2014ء کے اختتام پر منعقد ہوا تھا۔ اس سے قبل صورتِ حال یہی تھی کہ اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام عمران خان پہ تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ گنواتی تھیں اور تحریکِ انصاف نون لیگ کا گلا دبانا چاہتی تھی ۔ اس اجلاس سے قبل عمران خان کبھی کسی قیمت پر طالبان کے خلاف لب کشائی نہ کرتے تھے۔ الطاف حسین سندھ کی تقسیم، بصورتِ دیگر الگ ملک کا نعرہ بلند کررہے تھے! 
اس اجلاس سے قبل آوے کا آواہی بگڑا ہوا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں