کہکشائیں پھلانگتے ہوئے جب ہم واپس پہنچے تو کہرام برپا تھا۔ ساری آسمانی مخلوقات ہمیں رنج اور نفرت سے گھور رہی تھیں؛ حالانکہ بجز ایک خدائی حکم کی تکمیل کے کچھ ہمارا قصور نہ تھا۔ ہم فرشتے اس کے سوا کچھ کرتے ہی نہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ مومنوں کی وہ بستی ملیامیٹ کر کے ہم خود بڑے صدمے کا شکار تھے۔ اپنے ہاتھ پہ لگا خون ہمیں لہو رُلا رہا تھا اور ماضی کی ساری تباہ شدہ اقوام نظروں کے سامنے گھومتی تھیں۔ طوفان، پتھروں کی بارش اور زلزلے... لیکن وہ تو نافرمان تھے، وہ تو عذاب کے مستحق تھے لیکن ایسے پاکیزہ لوگ؟ آج سے قبل کبھی کسی عبادت گزار قوم کو ہم نے چھوا تک نہ تھا۔ اور وہ آخری لمحات... جب ہم ان تک پہنچے تو باریش نورانی چہرے پھٹی پھٹی آنکھوں سے، بے یقینی سے ہمارا منہ تک رہے تھے۔ خود ہمارا کلیجہ شک ہو گیا لیکن خدا ئی حکم سے مفر ممکن نہیں۔ بڑے ہی بدقسمت لوگ تھے وہ، بڑے ہی بد قسمت۔
تمام تر اطاعت گزاری کے باوجود اوّل دن ہی سے یہاں کوئی گڑبڑ تھی اور یہ بڑی حیران کن بات تھی کہ کوئی گناہ ہماری نظروں سے اوجھل رہ نہیں سکتا۔ اندر ہی اندر کوئی خطرناک پوشیدہ خرابی... بستی سے لوٹنے والے فرشتے سرگوشیاں کرتے کہ رحمتِ پروردگار وہاں کا رخ نہیں کرتی۔ آخر کیوں؟ سوال بہت اور جواب ایک بھی نہیں۔ ا س سے قبل تو یہی دیکھا گیا تھا کہ کوئی ایک بار پکارتا تو عرش کا مالک دس بار جواب دیتا۔ معاف کر ڈالنا اس کا وتیرہ تھا لیکن یہاں زمین پر وہ عبادت میں مشغول تھے اور آسمان پہ وہ بیزار بیٹھا تھا۔
پھر ایک دن حکم ہوا کہ ان کا نام بنی آدم کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ ''انہیں بدترین جانور شمار کرو‘‘ اس نے کہا اور ہم پہ جیسے بجلی گر پڑی تھی لیکن خدائی حکم سے مفر ممکن نہیں۔
آخر یومِ حساب آن پہنچا۔ آخر تباہی کا فرمان آن پہنچا۔ خدا کی بارگاہ میں آخری بار ہم نے نافرمان قوموںکا ذکر کیا۔ امریکی ملک اجاڑتے پھر رہے تھے، یورپ کے نائٹ کلب، بنگال کی خوں آشام ملکہ۔ ایک ہی اشارے سے اس نے یہ سب مناظر بجھا دئیے۔ کہا: ''میں وہ جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے‘‘ بے اختیار آدمؑ کا قصہ یاد آیا اور ہم لرز کے رہ گئے۔
''کون سا عذاب؟‘‘ ہم نے دریافت کیا۔ ''سب!‘‘ اس نے غیظ و غضب کے عالم میں کہا اور ہم کرّہ ارض کی طرف بھاگے۔ وہاں پہنچ کر ہم نے نصف کلومیٹر کا ایک شہابِ ثاقب تھام لیا۔ اسے زمین کی فضا سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہونا اور آسمان سے برسنا تھا۔ بستی کے پہلو میں جو دریا بہتا تھا، اس کا رخ موڑ دیا گیا۔ زیرِ زمین لاوے کی قوت میں اضافہ ہوا اور دھرتی لرزنے لگی۔ ہوا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ایٹم الگ کر کے انہیں چنگاری دکھا ئی گئی اور آسمان سے آگ برسنے لگی۔ سورج سے تابکار ذرات کا ایک شمسی طوفان لایا گیا اور زمین کا مقناطیسی میدان ہٹا دیا گیا۔ سب ختم ہو کے رہ گیا۔
بستی مٹ گئی لیکن خدا کے عبادت گزار بندوں کی ہلاکت نے آسمانی مخلوقات کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ صدمہ ایسا شدید تھا کہ فرائض انجام دیتے ہوئے سب کے ہاتھ کانپتے تھے۔ کائنات درہم برہم ہو رہی تھی۔ خدائے ذوالجلال کو پھر رحم آیا۔ ساری مخلوقات کو جمع ہونے کا حکم ہوا اور وہ کلمات نازل ہوئے، جنہوں نے ہمیں ایک نئی زندگی عطا کی۔
''میرے بندو‘‘ اس نے محبت سے کہا ''وہ علم سے تہی دست تھے۔ کیا میرا وہ فرمان تم نے اب تک نہیں سنا، میرے محبوبؐ پہ جس کا نزول ہوا تھا۔ یہ کہ خدا کے بندوں میں سے اس کا خوف رکھنے والے وہی ہیں، جو علم والے ہیں۔ کیا میری کتاب میں یہ لکھا نہیں کہ بے عقل لوگ میرے نزدیک بدترین جانور ہیں۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ بستی والے میری عبادت کرتے تھے اور مجھ سے ڈرتے تھے؟ نہیں، وہ اپنے آبائواجداد کی عبادت کرتے، اپنے بزرگوں سے ڈرتے تھے۔ ان کے باپ دادا دس خدائوں کی عبادت کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کرتے۔ وہ خدائے واحد کی پرستش نہ کرتے تھے بلکہ اپنے ذہنوں میں میرے نام کا ایک بت انہوں نے سجا رکھا تھا۔ کیا میرے اس فرمان سے اب تک تم محروم ہو، جو میں نے اپنے پیمبرؐ کے دل پہ اتارا تھا۔ یہ کہ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ مجھے تلاش کیا جائے تو میں نے مخلوق پیدا کی اور پھر علم کے سوا وہ کون سا ہنر تھا، جس کے سبب تم آدمؑ کے مقابل پست ہوئے؟‘‘
تب وہ عقدہ کھلا، جس نے ہمیں ہلاکت خیز پریشانی میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تب وہ بوجھ ختم ہوا، جو ہمیں کچلے ڈالتا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ وہ بڑی ہی بدبخت بستی تھی۔