"FBC" (space) message & send to 7575

کائنات اور بنی آدم

متحدہ عرب امارات کی فتویٰ کمیٹی نے مریخ کے سفر کو حرام قرار دیا ہے ۔ یہ پہلی بار نہیں کہ فرزندانِ اسلام نے ایسے ''سائنسی ‘‘ طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہو ۔ جگر تھام کر سنیے کہ ہماری خاکستر میں کیسی کیسی چنگاریاں دبی ہیں ۔ 
یہ ایک ایسی سرزمین کا قصہ ہے ، جہاں اکیسویں صدی میں بھی بادشاہت کا آفتاب پوری تمازت سے دمک رہا ہے۔سربراہِ مملکت سے لے کر تمام وزارتیں اور کلیدی عہدے ہمیشہ کے لیے شاہی خاندان کے لیے مخصوص ہیں ۔ 1966ء میں ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی کے نائب صدر علمِ فلکیات پر ایک مضمون تحریر کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسری ریاستی جامعہ کو اس بنا پر ملعون ٹھہراتے ہیں کہ وہ زمین کی سور ج کے گرد گردش کا ''جھوٹا‘‘ نظریہ پھیلا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرّہ ارض توساکن ہے ۔ ہمسایہ اسلامی ملک میں اس تحریر کی بنا پر مملکت کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ بات بادشاہ تک پہنچتی ہے اور وہ غضبناک ہوکر یہ مضمون تلف کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔
1982ء میں کاسمالوجی پر کتاب لکھ ڈالی۔ اب وہ کہتے ہیںکہ سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے ۔ آخر کار خلا کی سیر کرنے والا ایک شہزادہ انہیں بتاتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے زمین کو سور ج کے گرد گھومتا دیکھ کر آیا۔ بمشکل تمام شیخ صاحب اپنے نظریات سے تائب ہوتے ہیں۔وہ سورج اور سیاروں کی گردش سے متعلق اپنے قیمتی خیالات سے اختلاف کرنے والوں کو کفر کا مرتکب بھی قرار دیتے رہے ؛حتیٰ کہ مغرب کیتھولک چرچ کی طرف سے گیلی لیو کا مواخذہ یاد کرنے لگے۔ اس مشہور ماہرِ فلکیات کو اپنے ان نظریات کی بنا پر ، جو بعد میں درست ثابت ہوئے،سترھویں صدی کے آغاز میں مذہب کے ٹھیکیداروں نے ہمیشہ کے لیے نظر بند کر ڈالا تھا۔ شیخ صاحب کا قصہ ساڑھے تین صدی بعد کا ہے ، جب بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ کون کس کے گرد گردش کر رہا ہے ۔ 
لائوڈ سپیکر ایجاد ہوا تو برّصغیر کے ''علمائے کرام ‘‘نے اس کا استعمال حرام قرار دے ڈالا تھا۔ اس لیے کہ اذان دینے والے اور سپیکر کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے اور ان کا کہنا یہ تھا کہ اس فاصلے کی بنا پر شیطان اذان کے کلمات میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیتا ہے ۔ حماقتوں کا ذکر ہو اور ارضِ پاک کے روشن ستارے زیرِ بحث نہ آئیں ، یہ ممکن نہیں ۔میں خود کو اس قابل نہیں پاتا کہ ایک ادارے کی طرف سے ڈی این اے کو بنیادی گواہ کے طور پر قبول نہ کرنے کے فیصلے پر بحث کر سکوں ۔ میں تو اس لائق بھی نہیں کہ جماعتِ اسلامی کے سربراہ سیّد منوّر حسن کے اُس بیان پر تبصرہ کر سکوں ، جو انٹر نیٹ پر موجود ہے ۔ یہ کہ زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کے پاس چار گواہ موجود نہ ہوں تو اسے خاموش رہنا چاہیے ۔ کیا اس صورت میں مجرم کی حوصلہ افزائی نہ ہوگی ؟ 
کوئی شک نہیں کہ مریخ کا یہ مجوّزہ سفر، جسے فتویٰ کمیٹی نے حرا م قرار دیا ہے، خطرات سے بھرپور ہے ۔ سرخ سیارہ کرہ ّ ارض کی 
مانند زندگی کی حفاظت کرنے اور اسے پھلنے پھولنے والے لوازمات سے محروم ہے ۔ زیرِ زمین پگھلے ہوئے لوہے سے جنم لینا والا وہ مقناطیسی میدان وہاں موجود نہیں ، جو کینسر کا سبب بننے والی سورج کی خطرناک تابکاری کو روکتا ہے اور نہ ہی اوزون کی تہہ۔ پانی اور آکسیجن بھی نہیں ۔تابکاری اور شدید موسم سے بچے رہنے کے لیے زیرِ زمین ٹھکانا ڈھونڈنا ہوگا۔ مریخ کی کم کششِ ثقل جسم کو ایک حد تک سکیڑ دے گی ۔ ایسا جسم پھر کرّۂ ارض پہ زندگی گزارنے کے قابل نہ رہے گا (اور ظاہر ہے کہ واپسی فی الحال ممکن بھی نہیں)۔ مہم جو وہاں ایک غیر فطری اور تکلیف دہ زندگی گزاریں گے لیکن ظاہر ہے کہ ایسی مہمات پوری انسانیت کے اجتماعی علم میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں ۔ افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کو بعض اوقات تیل اور قیمتی قدرتی وسائل کی لوٹ مار سے منسلک کیا جاتاہے ۔ ایسے میں یہ بات کس قدر عجیب لگتی ہے کہ نظامِ شمسی کے ایک چاند ٹائٹن پر تیل کے دریا بہہ رہے ہیں ۔ وہ بارش کی صورت میں آسمان سے برستاہے ۔ دور ایک ہیرے کا بنا ہوا سیارہ محوِ سفر ہے۔ سیّارہ مشتری کی تہو ں میں ہیروں کی نشاندہی ہو رہی ہے ۔ گو کہ اگلی کئی صدیوں تک ہم یہ سب دیکھ کر للچا ہی سکتے ہیں لیکن 
تحقیق اور تلاش میں محو قومیں کبھی تو خلا ئی وسائل سے مستفیض ہونے کے قابل ہوں گی۔ ع
ایک ہم ہیں اور ایک وہ 
کہکشائوں کی رفتار اور کمیت کا حساب کتاب کرنے کے بعد مغربی سائنسدان قرار دیتے ہیں کہ ایک نہ نظر آنے والا مادہ کائنات کو پھیلا رہا ہے اور بظاہر دکھائی دینے والی کائنات اس کا صرف پانچ فیصد ہے ۔ خدا تو پہلے ہی یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ کائنات تخلیق کرنے کے بعد وہ اسے پھیلا بھی رہا ہے لیکن افسوس کہ ہر الہامی دعوے کی تصدیق مغرب ہی کرتا ہے ۔ ہم اس پہ جھگڑ رہے ہیں کہ سائنس کہیں مذہب سے متصادم تو نہیں ۔ اُدھر خدا کائنات پہ غور و فکر کرنے والوں پہ ناز کر رہا ہے ۔ وہ کہتاہے کہ اس کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جو سو ارب کہکشائوں کے پیمانے کا تصور کر سکے اور انسانی دماغ کو جانچ سکے ، خالق کی بزرگی و برتری کا وہ قائل ہوگا۔ دوسری طرف بعض عالم بیسویں صدی میں کرّہ ارض کو کائنات کا محور و مرکز قرار دے رہے ہیں اور ریاست ان پہ انعام و اکرام کی بارش کر ڈالتی ہے ۔
دیکھتے جائیے اور شرماتے جائیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں