"FBC" (space) message & send to 7575

تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو؟

فساد کے شکار مشرقِ وسطیٰ میں اب ایک اور تفریق...... بعض عرب ریاستیں ایک دوسرے کو ناگوار نظروں سے گھور رہی ہیں۔یہی نہیں، اپنے داخلی تنازعات میںانہیں پاکستان کی حمایت درکار ہے ۔یہ عذر وہ سننے کو تیار نہیں کہ سر سے پائوں تک ہم ذاتی مالی و عسکری مشکلات میں ڈوبے ہوئے ہیں ؎
ان نے قصداً بھی میرے نالے کو 
نہ سنا ہو گا، گر سنا ہو گا
مقدّس مقامات کا متولّی سعودی عرب تمام مسلم ریاستوں کے لیے کبھی کم نہ ہونے والی اہمیت کا حامل ہے ۔ خاکمِ بدہن اس کے خلاف کسی جارحیت کی صورت میں مسلمان ممالک اپنی تمام تر فوجی قوت جھونک دینے پر مجبور ہوں گے ۔ گریز اختیار کرنے والے حکمرانوں کو شدید عوامی ردّعمل ، حتیٰ کہ شاید اقتدار سے محرومی گوارا کرنا پڑے۔سعودی عرب مسلمان ممالک بالخصوص اپنے خطے کا قائد رہا ہے ۔ عرب تنازعات وہ حل کرتا چلا آ رہا ہے۔ اپنا یہ کردار اسے عزیز ہے بلکہ اس میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مخالفین کے خلاف اتحاد کی سربراہی چاہتا ہے؛ لہٰذا خطّے میں اسے اتحادی حکمران درکار ہیں ۔ اسی پسِ منظر میں اخوان المسلمون سے حکومت واپس چھیننے والی مصری فوج کو بعض عرب ممالک آٹھ ارب ڈالر کی امداد فراہم کرتے ہیں لیکن قطر کا منصوبہ کچھ اور ہے ۔ 
نقشے پر مشکل سے نظر آنے والے قطر کی معیشت سعودی عرب کی معیشت کا ایک تہائی ہے ۔ اب وہ اپنا کردار بڑھانا چاہتا ہے؛چنانچہ عرب بہار میں نیا جنم لینے والی قوتوں بالخصوص اخوان المسلمون کی حمایت کر رہا ہے ۔ الجزیرہ ٹی وی قطری حکومت کی ملکیت ہے اوروہ اخوان کی جنگ لڑنے میں پیش پیش ہے ۔ اسی بنیاد پر 12مارچ کو اس کا ریاض دفتر بند کر دیا جاتاہے ۔اسی بنا پر سعودی عرب ، بحرین اور متحدہ عرب امارات دوحہ سے اپنے سفرا واپس بلا لیتے ہیں۔ اخوان نے چھ دہائیوں سے برسرِ اقتدار قوتوں کا تختہ الٹا تھا مگر بعض عرب بادشاہتوں کو یہ رجحان گوارا نہیں۔ اکثر خلیجی ریاستوں میں اخوان دہشت گرد اور کالعدم قرار پاتی ہے ۔ 
قطرہی میں ''کمبائنڈ ائیر اینڈ سپیس آپریشن سنٹر‘‘ کے نام سے وہ امریکی فوجی تنصیبات قائم ہیں ، جہاں سے عراق اور افغانستان جنگ لڑنے کے علاوہ ایران کا دس سالہ محاصرہ کیا گیا۔ دوحہ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ خلیجی ممالک کی نسبت وہ ترکی سے تعاون بڑھا رہا ہے ۔ وہی ترکی جو اب اندرونی سیاسی انتشار کا شکار ہے ۔ کہانی اس کی بھی یہی ہے کہ اسلام پسند سیاسی قوت کئی دہائیوں سے حقیقی مقتدر فوج سے حقِ حکمرانی واپس چھین لیتی ہے ۔ عوامی حمایت سے وہ عساکر کا ایسا کڑا احتساب کرتی ہے کہ شدید سیاسی بحران اور حکومت کے خلاف بڑے احتجاج کے باوجود انہیں مداخلت کی ہمّت نہیں ہوتی۔اب یہ وہ فوج نہیں ، جو مصطفی کمال کی وارث تھی۔ 
ایران کی اپنی اہمیت ہے ۔ ماسوائے اسرائیل، فوجی اعتبار سے خطّے کی عرب ریاستوں پہ اس کا پلڑا بھاری ہے ۔ دوسروں کے برعکس، اپنے دفاع کے لیے وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 10برس کی سخت کشیدگی کے باوجود افغانستان ، عراق اورلیبیا جیسے ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا مغرب دانت پیسنے اور معاشی مقاطعے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ کسی فوجی اقدام کے جواب میں ننھا سا وجود رکھنے والا اسرائیل شدید تباہی سے دوچار ہو تا ۔ آبنائے ہرمز کی بندش ایک اور ممکنہ حربہ ہے۔ ایرانی سمند ر میں یہ 39کلومیٹر چوڑا تنگ راستہ ہے ، جہاں سے دنیا کا 20فیصد تیل ( سمندر کے راستے بکنے والا 35فیصد ) گزرتا ہے ۔ طویل عرصے سے بحران کا شکار مغربی و امریکی معیشت یہ برداشت نہ کر سکتی ۔ ایرانی دفاع میں کمی ہے تو ایٹم بم کی، جسے بنانے کی کوشش 2003ء میں اپنی ابتدا ہی میں عالمی نگاہ میں آگئی اور اس کا راستہ روک دیا گیا۔
قصہ مختصر ، خلیج کے اس گمبھیر اور گنجلک پسِ منظر میں ایک عرب ملک کے ولی عہد کی پاکستان آمد پر شام میں عبوری حکومت کی مشترکہ خواہش کا اظہار اور پھر ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ معنی خیز ہے ۔ سابق سفیر ظفر ہلالی ٹی وی پر یہ کہہ چکے ہیں 1996ء میں ایرانی سفیر نے انہیں یہ کہا تھا : ہم پاکستان میں استحکام چاہتے ہیں ۔ ایسا نہ ہو تو ایک اشارے پر پچا س ہزار مسلّح افراد حرکت میں آسکتے ہیں ۔اب 17 فروری کو سعودی ولی عہد کی پاکستان میں موجودگی کے دوران اس کی طرف سے پاکستان کے اندر ممکنہ فوجی کارروائی کے بیان پر غور کیجیے ۔ پاکستانی فوج مشرق میں بھارت اور مغرب میں دانت پیستے افغانوں کی سرحد پر تعینات ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ، وہ دنیا کی ایک بدترین گوریلا جنگ سے نمٹ رہی ہے۔ اس موقعے پرکسی قسم کی کشیدگی مول نہیں لی جا سکتی ۔ 
ایک کالم میں یہ سب سمیٹا نہیں جا سکتا۔مختلف نکات پر غور کیجیے۔ مثلاًعرب ولی عہد کے بیرونی دوروں کے فوراً بعد ایرانی صدر مسقط و عمان کارخ کرتے ہیں ۔وہ ایران کی طرف جھکائو رکھتاہے ۔ کویت نے بھی قطر کو تنہا کر نے کے معاملے سے علیحدگی اختیار کی۔ عالمی تجزیہ کاروں کی رائے میں مغرب اور امریکہ اب سنّی کی بجائے شیعہ ریاستوں اور گروپوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں ۔ ایران کے ایٹمی طاقت بن جانے کا وہ جھوٹا خوف ، جو خود مغرب نے عرب ممالک میں پیدا کیا۔ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ عبوری معاہدے پر اب وہ منہ بسور رہے ہیں ۔برطانوی رکنِ پارلیمنٹ جارج گیلوے اپنے خطاب میں یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا ملک سعودی عرب میں فرقہ وارانہ تفریق پیدا کرے گا۔ عالمی ادارے شام میں پاکستانی ہتھیاروں کی ممکنہ برآمد کا واویلا کر رہے ہیں ۔ اپنی اتحادی شامی حکومت گرانے کی کوشش پر روس سعودی عرب کے لیے کیا جذبات رکھتاہے ؟ بے سبب نہیں کہ سعودی خود کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں ۔ہر باخبر آدمی فوج کی بڑے پیمانے پر درآمد کی سعودی خواہش کا ذکر رہا ہے ۔ادھر ساری کی ساری فوج مختلف محاذوں پر مصروف ِ جنگ ہے ۔ عسکری قیادت محض تربیتی مقاصد کے لیے محدود تعداد میں افسران بھیجے پہ رضا مند ہے ۔
عرب ممالک میں تقسیم کا فائدہ بظاہر ایران اور درحقیقت مغرب کو ہوگا۔ پاکستان کو عربوں کی خدمت میں یہ مخلصانہ مشورہ پیش کرنا چاہیے کہ کوئی قوم کسی دوسری ریاست کی فوجی طاقت پر زیادہ دیر انحصار نہیں کر سکتی ۔ ملکوں کے مفادات بدلتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی کوششوں کا رخ عرب ایران کشیدگی میں کمی اور اعتماد سازی کے اقدامات کی طرف موڑنا چاہیے۔ آخر میں بڑے رنج سے میں یہ کہتا ہوں کہ سب کا ہدف قومی مفادات کا تحفظ اور خطے میں بالادستی تک محدود ہے ۔ مغرب مقابل مسلم اتحاد اور اسلام کی سربلندی جیسے مقاصد کہیں نظر نہیں آتے۔ اسی لیے سب ایک دوسرے کو شک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے تقسیم در تقسیم ہیں ؎ 
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں