کائنات آباد ہے ۔کہکشاں کہلانے والے ، سورجوں کے شہر اپنے سیاروں سمیت مسلسل محوِ سفر ہیں ۔ ان میں سے ایک پر میں رہتا اور یہ جاننے کا پورا حق رکھتا ہوں کہ میرے شہر ''ملکی وے ‘‘(Milky Way)کے مرکز میں کیا ہو رہا ہے ۔ کیا ہو رہا ہے وہاں؟
ہم جانتے ہیں کہ سیارے ستاروں کے گرد گردش کیا کرتے ہیں اور یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ستارے بھی خلا میں تیرتے رہتے ہیں ۔ ہمارا ستارہ یعنی سورج جن کئی حرکات میں مصروف رہتاہے ، ان میں سے ایک کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومنا ہے ۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اس مرکز میں موجود عظیم ستاروں کی اجتماعی کششِ ثقل اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیتی ہے ۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے لیکن وہاں کچھ بہت ہی پراسرار ، کچھ بہت ہی حیران کن مناظر دیکھنے میں آتے ہیں ۔ طبیعات کے کئی اصول وہاں دھرّے کے دھرّے رہ جاتے ہیں ۔آخر وہاں کیا ہو رہا ہے ؟
مِلکی وے کے قلب میں بارہ عدد، جی ہاں بارہ عدد سورج ایک نادیدہ شے کا طواف کر رہے ہیں اور وہ بھی خوفناک ترین رفتار سے ۔ ان میں سے ایک 5ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتا رسے بھاگتا اور 16برس میں اس غیبی جسم کے گرد اپنا طواف مکمل کرتاہے ۔ 5ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ! اندازہ اس سے لگائیے کہ ہمارے سورج کی رفتار صرف 220کلومیٹر فی سیکنڈ اور کرئہ ارض کی 30کلومیٹر ہے ۔
سائنس 12 ستاروںکے غیر معمولی رفتار سے یوں بھاگنے کی صرف ایک ہی توجیہ پیش کرتی ہے ۔ وہاں خوفناک حد تک زیادہ کمیت(عام الفاظ میں وزن) والی کوئی شے موجود ہے لیکن ہماری جدید ترین دوربینیں ایسا کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہیں ۔ ہارورڈ سمتھ سونین سینٹر فار آسٹرو فزکس (Harvard Smithsonian Center for Astrophysics) میں کام کرنے والے ممتاز طبیعات دان مارک ریڈ کے نزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ بارہ کے بارہ سورجوں کی گردش کا محور و مرکز ایک ہی جسم ہے ۔ ''آسمان پر ایک ایسی جگہ ، جہاں آپ کو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
اس خوفناک جگہ کو ، جہاں وہ نادیدہ جسم موجود ہے ، سیگی ٹیریس اے سٹار (Sagittarius A*)کا نام دیا گیا ہے ۔یہاں ایک خاص قسم کی لہریں( Radio Waves)خارج ہوتی ہیں ، جن کی بنیاد پر یہ پرکھا جا سکتاہے کہ یہ جسم متحرک ہے یا ساکن۔ وہ صرف ایک کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتا ر سے چل رہا ہے ۔کائناتی اعدادو شمار کے حساب سے یہ رفتار نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دوسری طرف سائنسی اعتبار سے ، بارہ سورجوں کی کششِ ثقل کے دبائو میں تواسے دوڑلگا دینی چاہیے۔ سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سیگی ٹیریس اے سٹار کسی بہت ہی بھاری جسم سے بندھا ہوا ہے ۔ وہی جسم ، جس کے گرد یہ سورج چکر لگا رہے ہیں ۔ حساب کتاب کیا گیا تو وہ نادیدہ جسم 4ملین سورجوں کے برابرہونا چاہیے تھا۔مزید یہ کہ اس کا حجم معمولی ہے ۔قریباً اتنا ، جتنا کہ ہمارے سورج اور اس کے پہلے سیارے عطارد کے درمیان فاصلہ ہے ۔
اوّل تو سائنسدان سر پکڑ کے بیٹھے رہے لیکن پھر جیسا کہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ ہوتاہے ، انہوں نے یہ معمّہ حل کرنے کی ٹھانی ۔ ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ (Event Horizon Telescope)کے نام سے ایک پروجیکٹ شرو ع ہو چکا ہے ، جس کے تحت ایک خاص قسم کی شعاعوں کی مدد سے اس عفریت کی تصاویر لی جائیں گی ۔ یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے کہ نہ صرف یہ مقام ہم سے بہت دور اور دھندلا ہے بلکہ کرّ ہ ٔ ارض اور اس کے درمیان گرد (Dust)بھی موجود ہے ۔ اس منصوبے کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا نہیں کہ سیگی ٹیریس اے سٹار ایک عظیم الجثہ بلیک ہول ہے بلکہ اس سارے معمّے کو حل کرنا بھی مقصود ہے ، جس کے تحت وہاں عجیب و غریب مناظر دیکھنے میں آتے ہیں ۔
لاکھوں سورجوں کے برابر کمیت رکھنے والے عظیم الجثہ بلیک ہول (Super Massive Black Holes)نادر نہیں ۔ تقریباً سبھی کہکشائوں کے مرکز میں وہ موجود ہیں ۔یہ کس طرح وجود میں آتے ہیں ، اس کے بارے میں کئی تصورات (Theories) موجود ہیں ۔مثلاً یہ کہ بے شمار بڑے ستاروں کا موت کے بعد آپس میں اشتراک اور اس کے بعد اردگرد موجود مادے کو نگلتے چلے جانا۔ اس پر سائنسدان متفق ہیں کہ ایک دفعہ جب بلیک ہول جنم پا چکے تو پھر وہ مادے کو ہضم کرتے ہوئے اور دوسرے بلیک ہولز میں ملتے ہوئے ،عظیم سے عظیم تر ہوسکتا ہے ۔ ان کے وجود کا مقصد کیا ہے ؟ ہم جانتے ہیں کہ بلیک ہول ستارے یا سورج تک کو نگل لیتے ہیں ۔ ہمارے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر کے نزدیک یہ کائناتی ردّی کی ٹوکریاں (Dustbins) ہیں ۔ خدا نے انہیں شاید کائنات کی صفائی ستھرائی پر مامور کر رکھا ہے ۔
سیگی ٹیریس اے سٹار کو 13فروری 1974ء کو ماہرِ فلکیات بروس بیلک اور رابرٹ برائون نے دریافت کیا تھا۔ اب تک وہ بہت معمولی حد تک ہی بے نقاب ہو سکا ہے ۔ ڈارک میٹر اور بلیک ہول ان گنے چنے معمّوں میں شمار کیے جاتے ہیں ، سائنس اب تک جنہیں حل کرنے میں ناکام ہے۔ آنے والی صدیوں میں شایدیہ اسرار ظاہر ہو کر اسی طرح عام ہو جائیں ، جیسا کہ سورج کے مرکز میں ہائیڈروجن کے ایٹموں کا ہیلیم میں بدلنا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔