"FBC" (space) message & send to 7575

ترکی بھی کبھی پاکستان تھا

ترکی کبھی پاکستان تھا اور پاکستان کو ایک دن ترکی بننا ہے۔ ایک ممتاز، خود مختار اور باعزت قوم۔ کب؟ یہ ہم پہ منحصر ہے ؎
نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے ،نہ دیوارِ چمن بلبل
تری ہمّت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے 
آنکھیں کھول کر دیکھیے، یہ وہی مفلس ترکی ہے، یورپ کی ایک بیمار قوم جس کی فوج اسرائیل کی حلیف تھی۔ آج اس کے سوا کون ہے جو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ معروف اسرائیلی اخبار ''ہاریٹز‘‘ (Haaretz) کے مطابق امریکہ سے خریدے گئے ایف سولہ طیاروں کو اس نے کامیابی سے اپ گریڈ کیا ہے۔ ان جہازوں کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں صہیونی اہداف کا تعین ایک دوست کے طور پر کیا گیا تھا؛ لہٰذا وہ انہیں نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ اس تبدیلی کے بعد بوقتِ ضرورت اب انہیں ہدف بنانا ممکن ہے۔ ٹیکنیکل زبان میں اس کے لیے فرینڈ اینڈ فو (Friend and Foe) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ 
یہی نہیں، دوسرے اخبارات ''اسرائیل ہیوم‘‘ (Israel Hayom) اور یروشلم آن لائن (Jerusalem online) کے مطابق 2010ء کی طرح، امدادی سازوسامان سے لدا ہوا ایک اور بحری قافلہ ترکی سے غزہ کا رخ کرنے والا ہے۔ کیا واقعی؟ یاد رکھیے، یہ وہ وقت ہے جب مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک کے حمایت یافتہ جنگجو شام و عراق میں ایک دوسرے کا منہ نوچ رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں ان کے اہداف واضح ہیں۔ بظاہر جو مذہب کے ٹھیکیدار ہیں‘ باطن ان کا ہوس سے بھراہے۔ یہ قوتیں خطے میں اپنی حمایت یافتہ حکومتوں کا قیام چاہتی ہیں، چاہے دو لاکھ شامی باشندوں کے بعد مزید پچاس لاکھ آدمی قتل کرنا پڑیں۔ اسی لیے اخوان المسلمون کی حکومت گرانے والی ظالم مصری فوج کو دو ریاستیں آٹھ بلین ڈالر یوں بانٹتی رہیں جیسے شادی بیاہ میں چھوہارے بٹتے ہیں۔ اسی لیے تو بعض تنظیمیں جابر شامی افواج کے شانہ بشانہ دادِ شجاعت دے رہی ہیں۔ 
عوام میں بظاہر عربوں کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں؛ البتہ ان کے ایک مخالف ملک کے حامی بہت متحرک ہیں۔ اس آسمانی حکم کو وہ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ گواہی سچی دینی چاہیے خواہ ہمارے اپنے ہی اس کی زد میں کیوں نہ آتے ہوں۔ تنقید کی جائے تو مذمّتی ای میلزکی بارش ہو جاتی ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف آخری مزاحمت ہونے کی وجہ سے بشارالاسد کی حکومت کا دفاع ایک مقدّس فریضہ ہے۔ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ بشارالاسد کے خاندان کو تاحیات حقِ حکمرانی کس نے بخشا ہے؟ ایک سال قبل میں نے یہ لکھا تھا: بشارالاسد متنازع ہو چکے؛ البتہ اپنی سبکدوشی اور نئے الیکشن کا وہ اعلان کریں تو کل صبح امن قائم ہو سکتا ہے لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے؟ آخر دم تک تک وہ ناگریز ہیں۔ پہلے ان کے والدِ گرامی ناگزیر تھے، پھر بڑا بھائی۔ حادثے میں اس کی ناگہانی موت کے بعد اب چھوٹا تاحیات مسندِ اقتدار پہ تشریف فرما ہے۔ کیا اپنی حکومت کے لیے دو لاکھ شہریوں کو قتل کرنے والا خاندان اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرے گا؟ بشارالاسد کے حامی اس پر باغیوں، بالخصوص آئی ایس آئی ایس کی بربریت کا ذکر کریں گے؛ حالانکہ فریقین ایک جیسے ظالم ہیں۔ مظلوم ان میں کوئی نہیں۔ 
عالمِ اسلام کی قیادت کا متمنّی یہ ملک تو قومی مفادات سے اوپر اٹھ کر کبھی سوچ ہی نہیں سکتا۔ کس برتے پر وہ ہے؟ پاکستان کے حق میں وہاں ایک لفظ لکھا، ایک لفظ بولا نہیں جا سکتا۔ اب ترکی کو دیکھیے۔ واحد حکمران جو مسلم اقلیت کے خلاف تشدد پہ برما جا پہنچتے ہیں۔ واحد ریاست جو مصری فوج کے مظالم پہ چیخ اٹھی۔ واحد ملک، 2010ء میں جس نے عالمی تحفظات کو ٹھوکر مارتے ہوئے غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے امدادی بحری جہاز ''فریڈم فلوٹیلا‘‘ روانہ کرایا۔ اسرائیلی فوج حملہ آور ہوئی اور دس ترک باشندے شہید کر دیے گئے۔ رجب طیب ایردوان نے اس پر اتنے سخت ردّعمل کا اظہار کیا کہ آخر ایک سال بعد، امریکی ثالثی کے ذریعے اسرائیلی حکومت کو معافی مانگنا پڑی ۔ معافی ہی نہیں بلکہ خون بہا بھی۔ 
پاکستان اور ترکی میں کتنی مماثلت ہے۔ معیشت دونوں کی تباہ حال تھی۔ دونوں نہایت طاقتور برّی، بحری اور فضائی افواج کے مالک۔ دونوں افواج مارشل لا پہ مارشل لا نافذ کرتی رہیں ۔ ترکی وہ واحد ملک ہے جو اسرائیل جیسے جارح ملک کو جھکنے پہ مجبور کر سکتا ہے۔ پاکستان وہ واحد اسلامی ملک جو اعلیٰ صلاحیت کی حامل فوج ہی نہیں، شاندار میزائل پروگرام ہی نہیں، جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ اسرائیل کی آنکھ میں وہ کھٹکتا نہ ہو۔ پھر یہ کہ مذہب اشارہ دیتا ہے کہ ان دونوں افواج کو آخر اکٹھے ہو کر معرکہ آرا ہونا ہے۔ 
رجب طیب ایردوان کی قیادت میں ترکی نے معاشی ترقی کی منازل طے کیں۔ اسی کارکردگی کی بنیاد پر وہ عوامی حمایت میسر آئی جس کے ذریعے فوج کو سیاست سے بے دخل کر دیا گیا۔ جنرل کیانی کی سربراہی میں، پاکستانی فوج بھی بتدریج سیاست سے لاتعلق ہوتی چلی گئی گو کہ حکمران جماعت اب اسے سیاست میں گھسیٹنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ بہرحال میرا نہیں خیال کہ کوئی مارشل لا اب ہمارا منتظر ہو گا لیکن وہ سیاسی قوّت ہنوز نادیدہ ہے جسے رجب طیب ایردوان کی پیروی کرنا ہے۔ ایردوان بھی تو 1994ء میں استنبول کے میئر کی حیثیت سے اچانک قومی منظرنامے پہ ابھرے تھے۔ کون جانے ہمارے ایردوان کا ظہور بھی قریب ہو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں