2008 ء کے جارجیا روس تنازعے کے برعکس، جہاں با اثر یورپی ممالک نے مصالحتی کردار ادا کیا تھا، یوکرائن میں یورپی یونین اور امریکہ خم ٹھونک کر روس کے سامنے کھڑے ہیں ۔ ادھر چین اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے ۔ مشرق سے مغرب تک، نئے عالمی مالیاتی، سیاسی اور عسکری اتحاد تشکیل پا رہے ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ محاذ آرائی کیا رخ اختیار کرتی ہے ۔ صورتِ حال بہرحال نہایت پیچیدہ ہے ۔
17جولائی کو یوکرائن میںباغیوں کے زیرِ اثر علاقے میں ملائیشین طیارہ گرنے کے بعد امریکہ کی طرح یورپی یونین نے بھی روس پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں ۔ اس سے قبل جو اقدامات اٹھائے گئے تھے، ان کی حیثیت علامتی تھی ۔اس بار بینکنگ، توانائی اور دفاعی شعبے کے علاوہ صدر ولادی میر پیوٹن کے مالدار اور وفادار ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ روسی معیشت کی حالت پہلے بھی قابلِ رشک نہیں ۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس سال شرحِ ترقی محض 0.2فیصد رہے گی۔ پھر یہ کہ بڑے کاروباری ادارے اور دولت مند افراد اب روسی کمپنیوں سے لین دین اور سرمایہ کاری کرتے ہوئے خوفزدہ ہیں کہ مستقبل میں مزید سخت پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں ۔ یہی نہیں ، جیسا کہ ایسی صورتِ حال میں ہمیشہ ہوتاہے ،روسی اشرافیہ تیزی سے اپنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر رہی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ پابندیاں روسی معیشت کو سست کر دیں گی لیکن چین کا کردار یہاں بہت اہم ہے ۔
توانائی کا شعبہ روس کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ وہ کرّۂ ارض کی 26فیصد قدرتی گیس کا مالک ہے اور یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے ۔ یورپ اپنی تیس فیصد گیس اسی سے خریدتا ہے۔ جارجیا اور اب یوکرائن میں بگڑتے حالات کے تناظر میں یورپی یونین روسی ذخائر پہ اپنا انحصاربتدریج کم ازکم کرنا چاہتی ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، چین کا کردار بہت اہم ہے ۔مئی میں چین اور روس کے درمیان 400بلین ڈالر گیس کی خرید و فروخت کے تیس سالہ معاہدے کو امریکہ اور یورپ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ چین کو امریکی خارجہ پالیسی پر بڑے اعتراضات ہیں ۔ مثلاً جاپان سے اس کا اتحاد اور اپنے سرحدی تنازعات پہ حریف ممالک کی حمایت لیکن روس سے اس کے بڑھتے ہوئے تعاون کی اصل وجہ توانائی کی ضروریات ہیں ۔ وہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی عظیم الشان معیشت کے لیے کم قیمت پر توانائی حاصل کرنا چاہتاہے ۔ امریکہ سے اختلافات کے باوجود وہ روسی سردرد کبھی مول نہیں لے گا ۔پھر سوال یہ ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک کے اتحادبرکس کا مجموعی ردّعمل اس ضمن میں
کیا ہوگا؟ان میں بھارت، چین، برازیل اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ روسی اسلحے کے سب سے بڑے خریدار بھارت کا طرزِ عمل ان میں سب سے زیادہ اہم ہے ۔ اس ''منی آئی ایم ایف‘‘ کا کیا کردار ہوگا ، جو ان ممالک نے ابتدائی طور پر 50بلین ڈالر سے قائم کرکے 100بلین ڈالر تک لے جانے کا اعلان کیا ہے ۔
خود یورپی ممالک بھی روس پہ لگائی جانے والی پابندیوں سے متاثر ہوں گے ۔ روس اور یورپ کی باہمی تجارت اورسرمایہ کاری کا حجم 500 بلین ڈالر ہے ۔ اٹلی کی سرکاری گیس کمپنی اینی (Eni) روس کی سب سے بڑی ہول سیل کلائنٹ ہے ۔ بعض افراد ایسے ہیں ، پابندیوں کے بعد جنہیں امریکی ویزا جاری نہیںکیا جا سکتا لیکن اٹلی میں وہ بڑی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اپنے قومی مفاد ات کو دیکھتے ہوئے اٹلی روس پہ پابندیوں کی مزاحمت کرتا رہا۔ امریکہ اور برطانیہ کے احتجاج کے باوجود ، فرانس ماضی میں روس سے کیے گئے معاہدے پر مکمل عمل درآمد نہیں تو دو میں سے کم از کم وہ ایک بحری جنگی جہاز اس تک ضرور پہنچانا چاہتاہے ، جو تقریباً تیار ہو چکا ۔اس پسِ منظر میں بعض ماہرین یورپ کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کے پیشِ نظر ان معاشی پابندیوں کو دو دھاری تلوار قرا ر دے رہے ہیں ۔ بہرحال آخری تجزیے میں یورپی ممالک یہ کڑوی گولی نگلنے کو تیار ہو چکے ہیں ۔
ایران کے ایٹمی پروگرام ہی کی طرح ، روس کے معاملے پر بھی یورپ اور امریکی بڑی حد تک متحد ہیں۔ فرق یہ ہے کہ روس ایران نہیں ۔ وہ دنیا کی خطرناک ترین ایٹمی اور دفاعی صلاحیت کا مالک ہے ۔ ایرا ن کے برعکس، امریکہ اور نیٹو اسے حملے کی دھمکی تک دے نہیں سکتے۔ سلامتی کونسل اس کے خلاف کوئی قراردا د منظور نہیں کر سکتی کہ وہ ویٹو کی طاقت رکھتا ہے ؛البتہ ایران ہی کی طرح معاشی میدان میں اسے نڈھال کرنے کی کوشش ضرور کی سکتی ہے اور کی جا رہی ہے ۔ روسی معیشت امریکہ کا محض آٹھواں حصہ ہے ۔اس میدان میں وہ جرمنی ، فرانس اور برطانیہ سے بھی کمتر ہے۔ صورتِ حال کو پیچیدہ بنانے والا ایک عنصر یہ ہے کہ نہ صرف وہ ان عالمی طاقتوں میں شامل ہے ، جو ایران کے ایٹمی پروگرام پہ مذاکرات میں شریک تھیں بلکہ ایران پر غیر معمولی اثر و رسوخ کے باعث اس کاکردار کلیدی سمجھا جاتاہے ۔ خارجہ پالیسی ، ایٹمی پروگرام اورعالمی پابندیوں کے باب میں توانائی کے ذخائر سے مالا مال ایران لا محالہ اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھائے گا۔
امریکہ ہی کی طرح روس بھی جارح ترین عالمی طاقت تھا۔ سرد جنگ کے زمانے میں دونوں کے حامی ممالک کی صورت میں دنیا دو بلاکس میں بٹی ہوئی تھی ۔ کبھی مشرقی اور کسی حد تک وسطی یورپ میں سوویت یونین کے زیرِ اثر کمیونسٹ حکومتیں قائم تھیں ۔اسے افغانستان میں دھنسا دیکھ کراس کے توسیع پسندانہ عزائم اور سرخ افواج سے خوفزدہ اقوام امریکی چھتری تلے اکٹھی ہوئیں۔ آخر سوویت یونین معاشی بحران کا شکار ہوا تو کمیونسٹ یورپی حکومتیں گرتی چلی گئیں ۔ پھرخود سرخ عالمی طاقت شکست و ریخت کا شکار ہوئی ۔ بظاہر ہمیشہ کے لیے وہ تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو گئی لیکن اب ظاہر ہو رہا ہے کہ بہت سی چنگاریاں راکھ میں سلگتی رہیں۔ یکدم وہ شعلہ بن گئی ہیں ۔ لگتا ایسا ہے کہ روس اپنی ٹانگیں ان ممالک تک پھیلانا چاہتاہے جو تاریخی طور پہ سوویت یونین کا حصہ یا اس کے اتحادی رہے ۔ رسّی جل گئی ہے مگر بل اسی طرح موجود ۔ امکان یہ ہے کہ آنے والے وقت میں اس محاذ پر پے درپے کئی قسم کی پیش رفت دیکھنے کو ملے گی۔