"FBC" (space) message & send to 7575

کپتان خالی ہاتھ واپس نہیں جائے گا

حکومت اکھاڑ پھینکنے کی خواہشمند قوّتیں ، بالخصوص چوہدری برادران عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو یکجا کرنے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک 11مئی 2014ء کو تحریکِ انصاف کے مظاہرین نے اسلام آباد جبکہ پاکستان عوامی تحریک نے راولپنڈی کا رخ کیا تو یہ ایک اتفاق نہیں بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ نواز حکومت کو زچ اور آخر چلتا کرنے کا یک نکاتی ایجنڈا۔ اس پس منظر میں اپنے چودہ کارکنوں کی لاشیں اٹھائے علّامہ طاہر القادری چودہ اگست سے قبل اگر اسلام آباد آکر بیٹھ جاتے اور پھر ملک کے طول و عرض سے تحریکِ انصاف کے کارکن وفاقی دارالحکومت کا ر خ کرتے تو یہ قابلِ فہم ہوتا۔مسلم لیگ نون کو بخوبی اندازہ تھا کہ دو مشتعل ہجوم یکجا ہوئے تو 14اگست کا احتجاج حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گا۔ اس صورتِ حال میں مڈ ٹرم الیکشن سمیت، تحریکِ انصاف کے مطالبات پر علّامہ طاہر القادری کی تنقید کو وہ موصوف کے دلی جذبات سمجھنے کی بجائے حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی حکمتِ عملی سمجھ رہے ہوں گے ۔ 
پچھلے ہفتے تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا تقابل کرتے ہوئے، ایک سینئر تجزیہ کار کا کہنا یہ تھا کہ حکومت عمران خان کی نسبت ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب مارچ سے زیادہ پریشان ہے ۔ اس لیے کہ کپتان جمہوری عمل اور انتخابی سیاست کا حصہ ہے۔
صوبہ سرحد میں حکومتی جماعت کا سربراہ بہت سی مجبوریوں میں بندھا ہوا ہے ۔ وہ اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا متحمل نہیں ، موجودہ حکومت جس کی بنیاد پہ قائم ہے ۔ ایک لحاظ سے یہ تجزیہ درست تھا لیکن مولانا طاہر القادری نہیں ، مسلم لیگ نون کا اصل حریف اوراصل چیلنج کپتان ہے ۔ وہ مئی 2013ء کے الیکشن میں دوسرے نمبر پر ووٹ حاصل کرنے اور پختون خوامیں حکومت بنانے والی جماعت کا سربراہ ہے ۔ایسی جماعت، پنجاب اور کراچی کے بے شمار حلقوں میں الیکشن ہارنے والے جس کے امیدوار 70، 70ہزار تک ووٹ لے اڑے۔ علّامہ صاحب تو پرویز مشرف کے دور میں انتخابی سیاست میں اپنا ہنر آزماکر ایک واحد نشست جیت پائے تھے۔ اس کے بعد مایوس ہو کر وہ بیرونِ ملک روانہ ہوئے۔ پھر پیپلزپارٹی کے دور میں ان کے دھرنے کا جس طرح اختتام ہوا، وہ بذاتِ خود ایک المیہ تھا۔اس صورتِ حال نے اس تجزیے پر مہرِ تصدیق ثبت کرڈالی کہ علّامہ صاحب پاکستانی سیاست کے ایک مستقل اور سنجیدہ کھلاڑی ہر گز نہیں ۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کی طرح ''شیخ الاسلام ‘‘ اس بار بھی ساری چیخم دھاڑ کے بعد ٹھنڈے ہو کر کینیڈا لوٹ جاتے لیکن ماڈل ٹائون سانحے کے بعد صورتِ حال میں ایک بڑی تبدیلی آئی ۔ یہ خونی واقعہ کیوں پیش آیا؟ سچ تو یہ ہے کہ شریف خاندان کے احسانات بھلا کر جس زبان میں علّامہ طاہر القادری انہیں للکار رہے تھے ، مسلم لیگ نون کی قیادت کے لیے وہ آزردگی کا باعث تھا۔ (یہ الگ بات کہ جنرل ضیاء الحق کے احسانات بھی اسی طرح بھلا دیے گئے )شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہر جماعت میں موجود ہوتے ہیں ۔ انہی عناصر نے اپنی قیادت کو یہ یقین دلایا کہ بزورِ طاقت وہ عوامی تحریک کے ہوش ٹھکانے لگا دیں گے ۔ یہ اندازہ اس وقت غالباً کسی کو نہ تھا کہ صورتِ حال اس حد تک بگڑ جائے گی ۔ اس حد تک کہ شریف برادران کے بازوئے شمشیر زن رانا ثناء اللہ کو فارغ کرنا پڑے گا۔ 
منہاج القرآن سیکرٹریٹ لاہور میں کیا ہور ہا ہے ؟ اس کا جواب بہرحال یہی ہے کہ 14اگست کو حکومت اس بات کی کسی صورت متحمل نہیں تھی کہ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے کارکن یکجا ہو کر ایک عظیم الشان اجتماع کی صورت اختیار کر لیں ۔ پنجاب بھر میں علّامہ صاحب کے کارکن گرفتار کیے جا رہے ہیں ۔ پولیس کی بھاری نفری ماڈل ٹائون کا گھیرائو کر چکی اور سب راستے بند ہیں ۔ ایف آئی اے سمیت مختلف ریاستی ادارے ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف تفتیش میں مصروف تھے۔ایف بی آر نے انہیں چالیس کروڑ روپے کا نوٹس بھیجااور تشدد پہ اکسانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا۔شواہد یہ ہیں کہ مالی معاملات میں مولانا کا دامن صاف ہرگز نہیں لیکن لطیفہ یہ ہے کہ زیادہ ٹیکس چوری کرنے والے چھوٹے ٹیکس چور کے خلاف تفتیش کر رہے ہیں ۔ زیادہ منی لانڈرنگ کرنے والے کم منی لانڈرنگ کا احتساب کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال امکان یہ ہے کہ شیخ الاسلام نظر بند کر دیے جائیں گے ۔اپنی رہائش گاہ کے باہر جمعرات کی شب تقریر کرتے ہوئے انہوں نے پولیس اہلکاروں سمیت ریاستی اداروں کو حکومتی احکامات تسلیم نہ کرنے کی تلقین کی۔ یہ بذاتِ خود سول نافرمانی کا مظہر ہے ۔ لطیفہ یہ ہے کہ حکومتی جماعت بھی پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں یہ سب کر چکی ؛حتیٰ کہ صدر مملکت کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کا اعلان بھی ۔ 
حیرت اس بات پہ ہے کہ گرفتاریوں اور اپنی رہائش گاہ کے گرد کنٹینر اور پولیس اہلکاروں کی موجودگی پر علّامہ صاحب غیظ و غضب کی تصویر کیوں ہیں ؟ موجودہ جمہوری نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا نعرئہ مستانہ وہ مسلسل بلند فرما رہے ہیں ۔ اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پہ چڑھ دوڑنے کی ترغیب بھی ۔ بغاوت اور کس چڑیا کا نام ہے ؟ اس پہ یہ معصوم خواہش کہ حکومت ہاتھ باندھے انہیں ڈگڈگی بجاتے دیکھتی رہے ؟ 
تحریکِ انصاف کا احتجاج کیا رخ اختیار کرے گا؟ کچھ کہنا مشکل ہے لیکن 14اگست کو مظاہرین کی تعداداس باب میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے ۔ مختلف سیاسی رہنما اور بااثر افرادتحریکِ انصاف اور نون لیگ کو کسی قابلِ عمل مفاہمت پہ قائل کر رہے ہیں ۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ کپتان کے کچھ مطالبات تسلیم کر لیے جائیں گے ، جس کے بعد تحریکِ انصاف کے خورسند کارکن اور رہنما لوٹ جائیں گے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تشکیل سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت بہرحال دبائو کا شکار ہے ۔ دھاندلی میں ملوّث انتخابی عملے کے خلاف کارروائی کا مانگنے والا الیکشن کمیشن بھی ۔ آخری تجزیے میں عمران خان اسلام آباد سے خالی ہاتھ واپس نہیں جائیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں