"FBC" (space) message & send to 7575

ترکی یا مصر ماڈل؟

وکلا اور متحارب سیاسی پارٹیوں سمیت ، فعال طبقات ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں ۔ یہی صورتِ حال رہی تو معاشرہ تقسیم اور تصادم کی جانب ، خانہ جنگی کی طرف بڑھ جائے گا۔
نیا سیاسی منظر نامہ تشویشناک ہے ۔ جمعرات کے روزاسلام آباد کے علاوہ لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں تحریکِ انصاف کے کارکن سڑکوں پہ تھے ، راولپنڈی میں نون لیگ کے ۔ پاکستان اور سپریم کورٹ بار کونسل کی مشترکہ کال پر کسی ممکنہ غیر آئینی اقدام کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے خلاف وکلاء نے ملک گیر ہڑتال کی۔ پارلیمنٹ میں سب جماعتیں تحریکِ انصاف کے خلاف ، وزیرِ اعظم کی جبری رخصت کے خلاف متحد ہیں۔ تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کے دوران گوجرانوالہ اور پھر ملتان میں شاہ محمود قریشی کے گھر پہ لیگی کارکنوں کا حملہ صرف ایک ٹریلر تھا۔ سیاسی تلخی اسی طرح بڑھتی رہی تو دونوں جماعتیں بڑے پیمانے پر متصادم ہو سکتی ہیں ۔ میڈیا باہم دست و گریباں ہے ۔ معاشرہ اضطراب کا شکار ہے ۔ 
ادارے بتدریج تشکیل پاتے ہیں ۔بتدریج ملک بہتری کی جانب بڑھتا ہے ۔منقسم معاشروں میں ، جو مارشل لائوں کی طویل تاریخ رکھتے ہوں ، یک جنبش زمانہ بدل ڈالنے کی کوشش کا انجام مصر کے صدر مرسی کا سا ہوتاہے۔ اخوان المسلمون یا ترک جسٹس
اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ، عمران خان ایک بار پھر سوچ لیں کہ تحریکِ انصاف کو کس کی پیروی کرنا ہے ۔ایک دس برس کے بعد مزید پانچ سال کے لیے اقتدار میں ، دوسری ایک ہی برس میں اقتدار کے ایوان سے بے دخل کر دی گئی ... اور اب فوجی مظالم کا نشانہ ہے ۔ 
ہر چیز کا ایک وقت ہوتاہے ۔ یہ وقت وزیراعظم کی برطرفی نہیں ، انتخابی اصلاحات کا ہے ۔ دھاندلی کی تحقیق اور ایسے سسٹم کی تشکیل کا، بلدیات سمیت اگلے کسی بھی الیکشن میں دھاندلی کو جو ناممکن بنا دے۔ اس سے زیادہ اس وقت کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ مشکوک حلقوں کی جانچ پڑتال اور ایک نئے الیکشن کمیشن کا وعدہ کرتے ہوئے، حکومت لچک دکھا چکی ۔ کپتان کو اب پیچھے ہٹنا چاہیے لیکن فوج کی ضمانت سے ایک با عزت معاہدے کے بعد۔ 
الیکٹرانک ووٹنگ سب سے اہم ہے اور یہ ایسا کارِ مشکل نہیں ۔ ''بینک اسلامی‘‘ کی ہر اے ٹی ایم مشین پر وہ آلہ نصب ہے ، سب سے پہلے جو انگوٹھے کا نشان جانچتاہے ۔ اس کے بعد ہی آدمی کو اپنے اکائونٹ تک رسائی ملتی ہے ۔ ایک دن میں بیس ہزار روپے نکالنے کے بعد دوبارہ آپ مشین استعمال نہیں کر سکتے ۔اسی کو ووٹنگ پہ منطبق کیجیے تو ایک بار ووٹ ڈالنے کے بعد دوبارہ آپ اس سسٹم کو استعمال نہ کرسکیں گے۔بھارت میں یہی طریقِ کار اپنا یا گیا۔ کبھی وہاں دھاندلی کا شور نہیں اٹھتا۔ اگر ایک نجی بینک یہ صلاحیت حاصل کر سکتاہے تو 25، 30ہزار ارب روپے کی معیشت والی ریاست کیوں نہیں ، پورے ملک اور بیرونی دنیا سے جو ماہرین اکٹھے کر سکتی ہے۔ 
انتخابی اصلاحات کے بعد کپتان پختون خوا لوٹ جائے ۔ لوٹ جائے اور صوبے کے ہر ہسپتال کو شوکت خانم ، ہر جامعہ کو نمل یونیورسٹی میں بدل دے ۔ ایک ماہ قبل عمران خان کو پانی سے بجلی کے ایک منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھتے دیکھا گیا تھا۔ ایسے منصوبوں کی گنجائش وہاں بے پناہ ہے ۔ چھ ماہ میں مکمل ہو جانے والے چھوٹے چھوٹے ڈیم جو مقامی آبادیوں کو بجلی فراہم کر سکیں ۔ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشت گردی کی وبا تھمتی دکھائی دے رہی ہے ۔اب اپنی غیر معمولی ساکھ استعمال کرتے ہوئے بیرونِ ملک سے انہیں سرمایہ کاروں کو دعوت دینی چاہیے۔ صوبے کے زیرِ زمین دفن قیمتی معدنی ذخائرکی پیداوار اور ملازمتوں کے ڈھیر۔ پولیس اور پٹوار پہلے ہی بہتری کی جانب گامزن ہیں ۔ نچلی عدالتوں کی اصلاح ، افراد کی بجائے اداروں کی حکمرانی ۔چار برس میں پختون خوا انصاف ، خوشحالی اور قانون کی بالادستی کا ایک ایسا نمونہ بن سکتاہے ، باقی صوبوں سے لوگ جس کا رخ کریں ۔ روایتی سیاست کی علمبردار نون لیگ کو اس کے بعد کون پوچھے گا؟ تحریکِ انصاف کو اب ایک ایسی جماعت میں بدلنا چاہیے، کمتر ترجیحات کے لوگ جس میں غالب نہ آسکیں۔ پارٹی کے اندر جمہوریت اور کثرتِ رائے سے فیصلہ سازی ۔ کسی فرد، حتیٰ کہ عمران خان کے الگ ہونے سے پارٹی کو بکھرنا نہیں چاہیے۔ 
نون لیگ کی حکومت کو اب اپنے جوہر دکھانے کا پورا موقع ملنا چاہیے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ اس کے بعد قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح اسے ہمیشہ کے لیے مسترد کر دیا جائے گا۔ جس طریقے سے تحریکِ انصاف اسے رخصت کرنا چاہتی ہے ، وہ پلٹ کر آئے گی اور پی ٹی آئی پہ حملہ آور ہوگی ۔ استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹے بغیر چارہ نہیں ۔ اب یہ آسان نہیں لیکن راستہ اور کوئی نہیں ۔ تقریباً تما م سیاسی پارٹیاں ، عالمی طاقتیں اور فوج اس کی مخالف ہیں ۔ پھر یہ کہ پچیس تیس ہزار مظاہرین اور پاکستان عوامی تحریک جیسی غیر پارلیمانی قوّت کی مدد سے آج وہ نواز شریف کی حکومت گرائے گی تو کل نون لیگ مولوی فضل الرحمن کی مدد سے اس کی ۔ 
صحیح یا غلط ، ریاست سے قرضہ لے تو اسے واپس کرنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ زرداری عہد میں آٹھ ہزار ارب ادھار لیے گئے ۔ نون لیگ کی حکومت جہاں تیزی سے نئے قرضے لے رہی ہے ، وہاں آئی ایم ایف کو پرانی قسطیں بھی ادا کی جا رہی ہیں۔ معاف کیجیے، ایک ہی سانس میں امریکہ اور آئی ایم ایف کو دھمکانا دلیری نہیں ، احمقانہ مہم جوئی ہے ۔ یہ کام ایک وزیراعظم ہی کر سکتاہے ۔ ایک غیر منقسم معاشرے کا ایسا حکمران، کارکردگی کے بل پر عوام جس کی پشت پہ کھڑے ہوں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں