"FBC" (space) message & send to 7575

شکست فتح میں بدل سکتی ہے!

طویل ترین دھرنے اور چینی صدر کی آمد ملتوی ہونے سے قطع نظر پارلیمنٹ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اور چوہدری نثار کے درمیان جنگ کا منظر پیش کر رہی ہے ۔نقطہ ء آغاز غالبا ًمنگل کے روز چوہدری اعتزاز احسن کا خطاب تھا۔ وزیراعظم کو مکمل تعاون کی یقین دہانی‘ لیکن اس خدشے کا اظہار بھی کہ بحران سے نکلتے ہی حکومتی وزرا کے تکبر ، ان کی رعونت میں اضافہ ہو جائے گا۔ اصل جملہ یہ تھا: میاں صاحب گزشتہ مارشل لا کے وقت جو چہرے آپ کے گرد موجود تھے، ذرا غور کیجیے کہیں آج بھی وہ آپ کے دائیں بائیں توموجود نہیں ؟ ایوان میں وزیراعظم کے ساتھ چوہدری صاحب ہی تشریف فرما ہوتے ہیں۔ اس سے قبل سینیٹ میں بھی چوہدری نثار صاحب سے جھڑپ کے بعد اپوزیشن طویل عرصہ ایوان کا بائیکاٹ کر تی رہی ہے ۔ وزیراعظم اور چوہدری نثار علی کے درمیان بڑھتے فاصلے کوئی راز کی بات نہیں ۔تین روز قبل پارلیمنٹ سے چوہدری صاحب کے خطاب میں میڈیا پہ تشدد کی مذمت کے دوران وزیراعظم نے جب ایک ایک گروپ کا نام لینے کی ہدایت کی تو انہوں نے اسے نظر انداز کر دیا ۔میاں محمد نواز شریف کا مخمصہ یہ ہے کہ پوٹھوہار کا راجپوت‘ 2013ء کے الیکشن میں انہیں چیلنج کرنے والی تحریک انصاف میں جا براجا تو کیا ہوگا؟ چوہدری صاحب غالباً سوچتے ہیں ، کہیں وہ بھی جاوید ہاشمی نہ بن بیٹھیں۔ دونوں مجبور ہیں ۔ 
''ایک تقسیم تحریکِ انصاف کے اندر بھی ہو رہی ہے ،فصلی بٹیرے اڑ جائیں گے‘‘ یہ عمران خان کا انکشاف ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ حکومت کے خلاف مہم میں کپتان کوشکست ہوئی ہے ۔ اس کا بے لچک روّیہ اور کسی قابلِ اعتماد سیاسی حلیف کی بجائے علّامہ طاہر القادری سے اتحاد اس کے محرکات ہیں ۔ پھر یہ کہ لانگ مارچ، دھرنے اور سول نافرمانی سے لے کر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے تک ، اپنے سارے کارڈ انہوں نے ایک ساتھ ہی کھیل ڈالے ۔مذاکرات میں مثبت پیش رفت کے باوجود علّامہ کی پیروی میں وزیراعظم ہائوس جانے کے فیصلے نے اس سارے معاملے میں تشدّد کی آمیزش کر دی ہے۔ 
صورتِ حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے تین ارکان قومی اسمبلی مستعفی ہونے سے صاف انکار کے بعد پارٹی سے نکال دیے گئے ۔اسی سے خوفزدہ ہو کر سندھ کے اراکین اپنی رکنیت سے دستبردار ہوئے ۔ قومی اسمبلی کے جن پانچ حضرات نے آئینی تقاضے نظر انداز کرتے ہوئے سپیکر کی بجائے اپنے استعفے عمران خان کے نام تحریر کیے ، زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ مکر جائیں گے ۔ یہی نہیں ، چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نون لیگ کا سپیکر باقی ماندہ اراکین سے بھی فرداً فرداً تصدیق کرے گا۔ اکثر افراد وہ ہیں، جنہوں نے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے اور پھر الیکشن جیتنے کے لیے ہزار جتن کیے اور اب وہ چرخہ جلا دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ صورتِ حال خطرناک ہے ۔پی ٹی آئی کے لاکھوں پُرجوش اور با صلاحیت نوجوان افسردگی کا شکار ہیں ۔ 
یہاںایک سوال : کیا عمران خان اس سے زیادہ کمزور ہیں ، جتنے کہ30اکتوبر 2011ء کے جلسے سے پہلے تھے ؟ اس سے قبل تو ٹی وی پر کپتان کا نام لینے والوں کا مذاق اڑایا جاتا۔ کئی جماعتیں کیا عام انتخابات میں نوا ز لیگ کا مقابلہ کرنے یا77لاکھ ووٹ حاصل کرنے کا تصور کر سکتی ہیں ؟ یاد رکھیے ، مناسب امیدواروں کا ٹکٹ اور الیکشن کے دن پولنگ ایجنٹوں کی تعیناتی سمیت مناسب اقدامات اٹھا کر دھاندلی کے باوجودکم از کم بیس پچیس لاکھ کا اضافہ ممکن تھا۔ 
اسلام آباد میں پی ٹی آئی اتنا ہجوم اکٹھا کر ہی نہیں پائی ۔ پھر پے درپے غلط فیصلوں‘ مثلاً مذاکرات میں مثبت پیش رفت کے باوجود وزیراعظم ہائوس کی جانب بڑھنے ، پارلیمنٹ کے احاطے میں داخلے اور پی ٹی وی کی نشریات معطل کرانے سے اس کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے ۔ گو کہا یہ جائے گا کہ یہ کارہائے نمایاں عوامی تحریک نے انجام دیے لیکن تحریکِ انصاف بہرحال قدم سے قدم ملا کر ساتھ چل رہی ہے ۔ پھر یہ کہ قریباً ساری سیاسی جماعتیں خم ٹھونک کر نون لیگ کے پیچھے کھڑی ہیں ۔ فوج اب مکمل طور پر لا تعلق ہے ۔ اس ساری صورتِ حال میں نون لیگ بہت مضبوط ہے ۔ تحریکِ انصاف کی ہزیمت کا بخوبی اسے اندازہ ہے ۔اسے معلوم ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خطاب کے باوجود سیاسی معاملات میں عسکری قیادت دخل نہ دینے کا تہیہ کر چکی ۔ 
عمران خان اور پی ٹی آئی کی بقا اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ وقتی پسپائی کے بعد ایک لمبی اننگ کا آغازکریں۔ وزیراعظم کے استعفے سے دستبردار ہو کر جس قدر مطالبات منوائے جا سکتے ہیں ، منواکر لوٹ جائیں ۔بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں کوئی لیڈر ضد پہ اڑ جانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا انجام اب جو بھی ہو ، پختون خوا میں ان کی حکومت اور اکثریت قائم و دائم ہے ۔ صوبے میں اعلیٰ کارکردگی ترپ کا وہ پتہ ہے ،جو پانسہ پلٹ سکتاہے لیکن مرکزی سطح پر کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے کے لیے انہیں پارٹی کی کانٹ چھانٹ کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا ہی ہوگا۔ تحریکِ انصاف کے جسم میں کئی گلٹیاں اگ چکی ہیں ، بروقت آپریشن نہ ہوا تو وہ کینسر بن جائیں گی۔ 
جہاں تک نون لیگ کی حکومت کا تعلق ہے ، کوئی بڑی تبدیلی اس کے بس کی بات نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ راولپنڈی اور لاہور کی طرح چند اور شہروں میں وہ سریے کی دیوارِ چین تعمیر کر سکتی ہے ۔ پولیس نہ پٹوار، سکول نہ ہسپتال ، کوئی ایک ادارہ وہ تعمیر نہیں کر سکتی ۔ کسی ایک محکمے کی اصلاح اس کے بس کی بات نہیں ۔جب تک تحریکِ انصاف یا جمہوری سیاسی بنیادوں پہ استوار کوئی نئی جماعت تعمیر نہیں ہوتی ،اپنے فیصلے جو عقل و دانش اور بہترین مشورے کی بنیاد پر کر سکے ، نون لیگ اقتدار کے مزے لوٹ سکتی ہے ۔ چار دن کی چاندنی ، پھر اندھیری رات۔ یہ کسی بھی خاندان کی بھول ہے کہ نسل در نسل وہ اس ملک پہ حکومت کر سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں