"FBC" (space) message & send to 7575

عقل کا تاوان

دنیا بڑی عجیب ہے ۔یہاں ایسے ایسے سوالات اٹھتے ہیں کہ بندہ منہ تکتا رہ جاتاہے ۔مظاہرِ فطرت دیکھتے ہوئے ، ہم انسانوں کی بنیادی تحقیق ''کیا؟‘‘تک محدود ہو جاتی ہے ۔ ''کیوں ؟‘‘اور ''کیسے؟ ‘‘تک پہنچتے ہوئے ہماری سانس پھولنے اور پر جلنے لگتے ہیں ۔ 
زندگی کو جو چیز بے جان اشیا سے جدا کرتی ہے ، وہ ایک مرکزی اعصابی نظام ہے ۔ کھربوں خلیات پر مشتمل یہ ایک ایسا نظام ہے ، جس کے ذریعے ہمارے جسم کے مختلف حصے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں ۔ اس کے بعد صورتِ حال کا تجزیہ اور پھر فیصلہ سازی ہوتی ہے ۔ اسی اعصابی نظام کے ذریعے ان فیصلوں کو نافذ کیا جاتاہے ۔ مثال کے طور پر صبح سویرے ورزش کرتے ہوئے میں اچانک اپنے سامنے ایک سانپ دیکھتا ہوں۔ آنکھوں میں موجود خلیات اس کی تصویر اسی اعصابی نظام کے ذریعے ایک pulseیا کرنٹ کی صورت میں دماغ کی طرف بھیجیں گے ۔ دماغ میں موجود اعصابی عمارت کے کچھ حصے پلک جھپکنے میں صورتِ حال کا تجزیہ کریں گے ۔ماضی کے اپنے تجربے اور معلومات کی بنا پر وہ بظاہر اس چھوٹی دکھائی دینے والی مخلوق کو خطرہ قرار دیتے ہوئے ہاتھ پائوں کو دفاعی حرکات کا حکم دیں گے ۔اس کے بعد کیا ہوگا، وہ ان بے شمار سوالات میں سے ایک ہے ، جن کی کوئی سائنسی توجیہ پیش کرنا مشکل ہے۔
آدمی کو متحرک دیکھ کر سانپ بھی جوابی حملہ کرتاہے ۔ اپنے باریک دانتوں کے ذریعے جسم میں شگاف پیدا کرنے کے بعد وہ اس مہارت کے ساتھ اس میں زہر انڈیلتا ہے ، گویا کئی سالہ تربیت یافتہ نرس انجیکشن لگا رہی ہو۔ یہی نہیں ، کئی مخصوص اقسام کے زہر اسی اعصابی نظام کو تباہ کر ڈالتے ہیں ، جس کے ذریعے ہمیں اپنا بچائو کرنا ہے ۔ وہ اس باریک تار یعنی نرو (Nerve)کو تباہ کر دیں گے، جس کے ذریعے دماغ نے ہاتھ کو پتھر اٹھانے کا حکم دینا ہے ۔ انسان مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ رینگنے والی اس حقیر مخلوق کو میرے جسم کے یہ راز کیسے معلوم ہوئے؟ اس با ت کا کوئی امکان نہیں کہ اپنے اس ننھے سے دماغ کے ساتھ ، جو بمشکل اسے زندہ رکھنے والے افعال انجام دیتاہے ، وہ میرے جسمانی راز معلوم کر چکا ہو ۔ اگر وہ اس قدر ذہین ہوتو کرۂ ارض پہ آدمی کے بجائے اسی کی حکومت ہوتی ۔ بہرحال، یہ سب بہت حیرت انگیز ہے ۔
یہاں ہم یہ مطالعہ ضرور کر سکتے ہیں کہ سانپ کا زہر انسانی جسم کو تباہ کرتاہے۔ اس کا تدارک کرنے کی تدبیر بھی لیکن سارا زور''کیا ‘‘پر ہی ہوگا۔''کیسے ‘‘او ر''کیوں ‘‘کے سوالات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ 
آج کا انسان رحمِ مادر میں جھانک چکا ہے ۔ ایک واحد ننھے خلیے سے انسانی جسم کی تعمیر شروع ہوتی ہے ۔ تیس گھنٹے بعد وہ دو اور یہ دو پھر چار میں بدل جاتے ہیں ۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ؛حتیٰ کہ آٹھویں دن اب خلیات کا یہ مجموعہ بچّہ دانی کی دیوار سے چمٹ جاتاہے ۔ اب تک یہ سارا سلسلہ بہت سادہ تھا کہ ہر خلیے نے اپنے ہی جیسے دو میں تقسیم ہونا تھا لیکن اب مختلف قسم کے خلیات نے جنم لینا ہے ۔ کسی نے ناک کی ہڈی بنانی ہے اور کوئی پائوں کا حصہ بنے گا۔ ہر خلیہ نہ صرف یہ جانتاہے کہ اسے کس عضو کی تعمیر میں حصہ لینا ہے بلکہ یہ بھی کہ اس عضو میں اسے کس مخصوص جگہ پر نصب ہونا ہے ۔ حیرت میں گم انسان صرف اور صرف ''کیا ‘‘دیکھتا رہ جاتاہے ۔ ''کیوں ‘‘اور''کیسے ‘‘کے سوالات ہمیشہ کی طرح تشنہ رہ جاتے ہیں۔
سورج کے مرکز میں عظیم الشان دبائو اور درجہ حرارت کے زیرِ اثر ہائیڈروجن گیس کا ہیلیم میں بدلنا اور اس عمل کے دوران حرارت اور روشنی خارج کرنا۔ پودوں کا نہ صرف اسی روشنی میں موجود توانائی کو ایک ایسی شکل میں بدلنا، جو انہیں اور ہمیں خوراک مہیا کرتی ہے بلکہ اسی عمل کے دوران آکسیجن تخلیق کرنا۔ انسانوں اور حیوانوں کا اسی آکسیجن کو اپنے جسم میں بنیادی ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ میں بدلنا۔اسی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا زمین کی فضا میں شامل ہونا ۔ ایک ایک چیز کو آدمی دیکھتا چلا جاتاہے لیکن صرف یہ معلوم کرپاتاہے کہ کیا ہو رہا ہے ۔''کیوں ‘‘ اور''کیسے ‘‘کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ۔ 
اپنی ہزاروں سالہ زندگی میں یہ ''کیا ‘‘ہی کو پہچاننے کا نتیجہ ہے کہ آدمی اب اپنے جسم کے ناکارہ خلیات دوبارہ تخلیق کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ آپ نے ناکارہ دل اور جگر والے انسانوں کو مرتے دیکھا ہوگا۔ مستقبل کے کرۂ ارض میں ایسا نہیں ہوگا۔ ان کے اپنے جسم سے خام مال لے کر ناکارہ اعضا دوبارہ تعمیر کیے جائیں گے ۔ جہاں تک نسبتاً سادہ اعضا کا تعلق ہے ، وہ ابھی سے اگائے جا رہے ہیں ۔ یہ کوئی خواب و خیال کی بات نہیں ۔اگست 2012ء میں چین کے صوبے فوجیان میں 22سالہ ژیائو لیان کی ناک ایک ٹریفک حادثے میںاس بری طرح زخمی ہوگئی تھی کہ اس کا علاج ممکن نہیں تھا۔ اب ایک نئی ناک اگائی گئی اور اس کے اپنے ماتھے پر ۔ ناک کی ہڈی کا کردار اس کی پسلی سے لیے گئے چھوٹے سے ٹکڑے نے ادا کیا۔ 
بظاہر دنیا بدلتی چلی جا رہی ہے ۔ زندگی اب بہت آرام دہ ہے لیکن اگر میں یہ کہوں کہ ہم اپنی طرف سے کچھ تخلیق کرنے کی بجائے صرف اور صرف مظاہرِ فطرت کو سمجھ کر ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا نے کی طرف جا رہے ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ایسے میں حیرت سے میں خود کو اور اپنے سے کہیں بڑا کاسہ سر رکھنے والے جانوروں کو دیکھتا ہوں ۔ ایسا لگتاہے کہ جس عقل کی بنا پر میں برتر ہوں ، ہزاروں سال پہلے آسمان سے وہ نازل ہوئی تھی۔ بظاہر یہ بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ، یہ ہمارے لیے ایک دن بہت بڑی مصیبت کاباعث بنے گی ۔ اسی دن کا مجھے ڈر ہے ۔ ایک دن ہمیں اس کا تاوان اداکرنا ہوگااور وہ بڑا بھاری دن ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں