کیمبرج یونیورسٹی میں نیوٹن کے جانشین ، عظیم طبعیات اور فلکیات دان سٹیفن ہاکنگ سے انسانیت کے مستقبل پر سوال کیا گیا۔ سر سے پائوں تک ایک مفلوج زندگی گزارنے والے پروفیسرہاکنگ کو اس کی ذاتی محرومیوں نے مایوس ہرگز نہیں کیا۔ وہ تو یہ کہتاہے کہ معذوری کی وجہ سے اس نے اپنا تمام وقت کائنات پر غور وفکر میں صرف کیا۔ ایک ایسی تھیوری کی تلاش جو اس دنیا کی مکمل تشریح کر سکے۔ اپنی اس جستجو میں اس نے خدا کے وجود کو زیادہ اہمیت نہیں دی ؛حالانکہ یہ اس تحقیق کا ایک بنیادی سوال تھا۔پروفیسر نے اس الہامی پیغام کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ نہیں لیا جو حضرت موسیٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑ سے ہوتا ہوا حضرت محمد ؐ تک پہنچا۔ اس کی بجائے کبھی اپنے لیکچر کے آغاز پر وہ کسی متروک افریقی یا یونانی مذہب پر ایک استہزائی نگاہ دوڑاتا ۔ کبھی خود سے یہ سوا ل کہ کیا (اس قدر ترقی یافتہ ہونے کے بعد )انسان کو اب خدا کی ضرورت باقی ہے بھی یا نہیں ؟ اور کبھی یہ اعلان کہ خدا اپنی بنائی ہوئی کائنات میں مداخلت نہیں کرتابلکہ وہ فزکس اور ریاضی کے قوانین کے تحت خودبخود رواں رہتی ہے ۔ایک بار اس نے یہ کہا کہ جس بگ بینگ کی کوکھ سے کائنات نے جنم لیا تھا، اس کے لیے خدا کا ہونا ضروری نہیں ۔
ایسے میں تیسری دنیا کا ایک ہونق سا کالم نگار حیرت سے اپنا جائزہ لیتاہے ۔ بڑی ایجادات ایک طرف،دوسرے جانور تو انسانی دستبرد سے محفوظ رہنے کے لیے کوئی مہلک ہتھیار بھی بنا نہ سکے ۔ انسان جانوروں میں سے ایک جانور ہے ، جس کا سائنسی نام ہومو سیپین سیپین (Homo sapien sapien)ہے ۔ کیا عالمِ سائنس کے درخشندہ ستاروں نے کبھی اس بات کا سراغ لگانے کی کوشش کی کہ آدمی کو کرّئہ ارض پہ غلبہ دلانے والی عقل کا منبع کیا ہے ؟ یہ بھی کہ کوئی دوسرا جانور اس ذہانت کا ایک قطرہ تک کیوں نہ پا سکا؟ایسا لگتاہے کہ انسانی عقل زمین نہیں ، آسمانوں کی شے ہے ۔
میری نظر میں عقلِ انسان خدا کے وجود کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔اسے پرکھے بغیر کائنات کی تشریح ممکن نہیں ۔ اس بنیادی سوال کو نظر انداز کر کے دنیا کا سب سے عالم فاضل آدمی بھی ٹامک ٹوئیاں ہی مار سکتاہے اور مار رہا ہے ۔
کائنات کو سمجھنے کے حوالے سے بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں دو شاندار نظریات پیش کیے گئے ۔ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹی ویٹی (General Theory of Relativity)اور کوانٹم مکینکس ۔ ایک کھرب ہا کھرب میل اور دوسری نادیدہ ایٹم کے ایک ذرّے کی سطح پر کائنات کی وضاحت کرتی ہے لیکن ذرا ٹھہریے ۔آج تو میں غلط رو میں بہتا چلا جا رہا ہوں ۔
سوال یہ تھا کہ انسانیت کا مستقبل کیا ہے ؟
تو سٹیفن ہاکنگ نے یہ کہا ''جنگوں ، وسائل کے خاتمے اور آبادی میں تیز رفتاراضافے سے عالمِ انسانیت کو اپنی تاریخ کے شدید ترین چیلنج کا سامنا ہے ‘‘۔ اس نے یہ کہا کہ بات اب ہزاروں اور لاکھوں سال کی نہیں ۔اگلے سو سال کے اندر اندر ہمیں کرّئہ ارض سے باہر نئی پناہ گاہیں ڈھونڈنا ہوں گی ۔
پروفیسر ہاکنگ کے خیال میں انسانیت کی بقا کا سارا دارومدار اسی پر ہے کہ ہم نئی زمینیں ڈھونڈیں، دوسرے سیاروں کا رخ کریں۔ ان سات ارب ذہین جانور وں کے لیے یہ زمین تنگ پڑتی جا رہی ہے جو ہر وقت بچّے جنتے رہتے ہیں ۔
سٹیفن ہاکنگ کی بات اپنی جگہ درست ہوگی لیکن میں کائناتی پیمانوں کو دیکھتااور لرز جاتا ہوں ۔ وسائل اور وقت کے حساب سے ہمارا دامن خالی ہے ۔ انسانیت کی کل عمر چالیس پچاس ہزار سال ہے۔ ستاروں کی قریب ترین جوڑی الفا سینٹوری اور ان کے کسی قابلِ رہائش سیارے تک پہنچنے کے لیے موجودہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ہمیں 80ہزار سال درکار ہیں ۔ ہمارے پاس اتنا وقت ہے اور نہ توانائی ۔یوں بھی سفر کے لیے خلاکوئی خوشگوار راستہ نہیں۔ انسانی جسم پر اس کے بے حد نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ آدمی کا جسم سکڑ کے رہ جاتاہے ؛حتیٰ کہ وہ بانجھ ہو سکتاہے اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ، بانجھ جانور کی نسل ختم ہو جاتی ہے ۔
عافیت نظامِ شمسی میں ہے لیکن صرف اسی سیارے میں ، جہاں اس وقت ہم قیام پذیر ہیں۔ یہاں چار ارب سال میں وہ نظام تشکیل دیے گئے ہیں ، جو اسے ایک قابلِ رہائش سیارہ بناتے ہیں۔ جسم کے ہر خلیے کو ہر وقت آکسیجن چاہیے۔ ا ندازہ اس سے لگائیے کہ دماغ کو خون کی روانی متاثر ہو اور وہ آکسیجن سے محروم ہو جائے تو چند لمحات میں آدمی فالج ، کومے یا موت کا شکار ہو جاتاہے۔ سورج کی روشنی زندگی کو جنم ضرور دیتی ہے لیکن وہ سخت نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے ۔ ہماری بے علمی میں دو ان دیکھی حفاظتی تہیں مسلسل اسے چھان رہی ہیں ۔ نہایت احتیاط سے وہ صرف وہ شعاعیں ہم پر ڈالی جاتی ہیں ، ہمارا جسم جنہیں سہہ سکتاہے ۔
یہ زمین مبارک ہے ، جس میں اناج اگتاہے ۔ مریخ سورج سے مناسب فاصلے پر ہے لیکن وہاں توکیکر کا ایک درخت نہیں اگتا۔ میری زمین کی کششِ ثقل نہایت موزوں ہے ۔ ایک کم یا زیادہ کشش والے سیارے پر زندگی کس قدر تکلیف دہ ہو سکتی ہے ، اس پر کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ ہم ایک ایسے مقدس سیارے میں رہائش پذیر ہیں ، جہاں آسمان سے بارش برستی اور زندگی کو پروان چڑھاتی ہے ۔دریا زمین کے اوپر بہتے ہیں اور اس کے نیچے بھی۔ اس گھر سے مجھے محبت ہے ۔
چاند میری زمیں، پھول میرا وطن
کائنات وسیع ہے ، بہت وسیع۔ صرف ہماری کہکشاں میں ہر سال پانچ سے دس نئے سورج جنم لیتے ہیں ۔ ان میں سے کئی کے جلو میں نئی زمینیں ہوتی ہیں لیکن میں جائوں تو جائوں کہاں ؟ اتنا وقت ، اتنا سرمایہ اور اتنی توانائی کہاں سے لائوں ؟ اور پھر میری یہ چار دن کی زندگی اور چھوٹی چھوٹی خواہشات ؟
عمرِ دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
انسان بڑا ہو گیا ہے ۔ بڑی بڑی باتیں کرنے لگا ہے ۔جینیٹک انجینئرنگ، نینو ٹیکنالوجی، ایٹمی توانائی اور تھری ڈی پرنٹنگ...یہ سب تو خوش آئند اور مبارک لیکن کوئی اور سیارہ ہرگز نہیں ۔ میں تو اسی زمین میں ٹھہر کر کائنات میں جھانکتا رہوں گا۔