"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ مل گئی ، باقی آئندہ

دھرنوں سے حکومت گرنہیںسکی اور یہ خوش آئند ہے ۔ بالخصوص اس لیے کہ کوئی غیر ملکی شہری اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہو جا تا تو یہ عمل بار بار دہرایا جاتا۔آج نواز شریف، کل عمران خان ۔یہ بھی کہ تحریکِ انصاف کو ایک ایسی منظم جماعت میں بدلے بغیر، مشکوک کردار جس میں کلیدی عہدوں پر فائز نہ ہوں ، کپتان کا اقتدار تباہی کا پیغام ہوتا۔
ملتان کا الیکشن کسی حد تک یہ واضح کر دے گا کہ ڈیڑھ برس کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے بعد نون لیگ اور تحریکِ انصاف میں کتنا دم خم ہے ۔ شہر کی سیاست پہ نظر رکھنے والوں کی رائے میں جاوید ہاشمی کے امکانات کم ہیں۔ جیت بھی جائیں تو نون لیگ کی حمایت نے انہیں ہرا ڈالا ہے۔ باغی کا قد کاٹھ کم ، اس کی سیاسی عمر گھٹ سی گئی ہے ۔ کہا جاتاہے کہ بیمار اوربڑی حد تک مفلوج ہاشمی کو تحریکِ انصاف سے نکالنے میں شاہ محمود فیکٹر سب سے زیادہ اہم تھا ۔کئی دہائیوں پہ مشتمل یہ سیاسی دشمنی بظاہر تحریکِ انصاف میں شمولیت سے ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن پہلے دن ہی سے شاہ محمود قریشی نے سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ایک آستانے پہ دو مخدوم !
دوسری طرف ہاشمی صاحب نے یہ دیکھا کہ طاہر القادری سے اتحاد کے ساتھ حکومت گرانے کا سازش نما منصوبہ بالکل ہی ناقص ہے ۔ پے درپے عمران خان غلطیاں کر رہے تھے ۔ نواز حکومت کے خاتمے کا انہیں اتنا یقین تھا کہ استعفوں کے ساتھ ہی انہوں نے ساری کشتیاں جلا دی تھیں۔ جاوید ہاشمی کو یہ احساس ہوا کہ تحریکِ انصاف کا جہاز ڈو ب جائے گا۔ اگر اس وقت انہیں یہ معلوم ہوتا بیمار اور لڑکھڑاتے دھرنے کے باطن سے اس قدر شاندار جلسے جنم لیں گے تو شاید وہ چپ سادھ لیتے۔وہ فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچاہے ، جو جاوید ہاشمی کی سیاسی زندگی کا خاتمہ کر سکتاہے اور یہی حریف مخدوم کا ہدف ہے ۔ 
دل نہیں چاہتا کہ اس شہسوار کا انجام برا ہو ۔ میری نگاہ میں شاہ محمود وں سے وہ بہت بہتر ہیں مگر اب تو نون لیگ کے امیدوار ! ازراہِ تمسخر جسے پٹوار لیگ کہا جاتاہے ۔ کپتا ن کا اب وہ حریف ہے اور کپتان کی آستین سانپوں سے بھری ہے ۔ پاکستانی سیاست کی کوئی کل بھی تو سیدھی نہیں۔
پنجاب اور پختون خوا کے بلدیاتی الیکشن جب بھی ہوئے ، تحریکِ انصاف اور نون لیگ کے مستقبل پر مہر لگا دیں گے ۔ اپنے وعدے کے مطابق پختون خو احکومت اگر بائیو میٹرک سسٹم کے تحت شفاف انتخاب کرا سکی اور اگر ڈیڑھ برس حکومت کے بعد بھی عمران خان اکثریت حاصل کر سکے تو یہ ایک تاریخ ساز فتح ہوگی ۔ پھر وہ پاکستانی سیاست کے ایک دیرپا کھلاڑی ہوں گے ۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے ، یہاں استعفوں کا خمیازہ نہ صرف بلدیاتی امیدواروں بلکہ آئندہ عام انتخابات میں قومی و صوبائی امیدواروں کو بھی بھگتنا ہوگا۔ایسے شخص کو قبول نہ کیا جائے گا ، جس سے ایک ڈیڑھ سال بعد استعفے کا خدشہ ہو۔ 
یہ سب تو ٹھیک لیکن سیاسی محاذ آرائی کے لیے عدالت کا میدان ٹھیک نہیں ۔ میرا اشارہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت اس مقدمے پر ہے ،تحریکِ انصاف جس میں مدعی ہے ۔ یہ کہ فوج کی ثالثی کے بارے میں جھوٹ پر وزیرِ اعظم کو نا اہل کیا جائے ۔یہ بات درست ہے کہ آرمی چیف سے ایک کردار ادا کروانے کی کوشش کے بعد وزیرِ اعظم پیچھے ہٹے اور غلط بیانی سے کام لیا۔ جسٹس دوست محمد خاں نے اس پر یہ کہا کہ صحابہ کرامؓ کے بعد کوئی صادق اور امین نہیں ۔ اس بنیاد پر اگر نا اہلیت کی تلوار چلی تو اسمبلیاں خالی ہوجائیں گی اور عدالتیں بھی۔ یہ ہے پتے کی بات۔ صحابہ کرامؓ بڑے پاکباز لوگ تھے مگر صادق اور امین کے القاب تورحمتہ اللعالمینؐ کے لیے مخصوص تھے،اپنی ساری عمر میں کبھی ایک بار بھی جنہوں نے خیانت کی اور نہ جھوٹ بولا۔ کاروباری پسِ منظر رکھنے والے وزیرِ اعظم کو اس پیمانے پر اگر جانچنا ہے تو پھر عمران خان اور علّامہ طاہر القادری سے لے کر سبھی کے ماضی میں جھانکیے ۔ آئیے اپنا گریباں چاک کریں اور شرمندہ ہوں ۔ 
کارِ سیاست آج فرشتوں کا کام نہیں ۔ یہاں دشنام ملتا، پگڑی اچھلتی ہے ۔ اسی مقدمے میں ایک صاحب نے یہ کہا کہ وزیرِ اعظم اور آرمی چیف ، سبھی کو عدالت بلانا چاہیے کہ سچ عوام کے سامنے آئے۔کس نے کیا کردار ادا کرنے کی درخواست کی اور پھر ہوا کیا؟ یہ بڑی نا سمجھی کی باتیں ہیں ۔ عدالت کا تقدس بحال رکھنا عدالت ہی کی ذمہ داری ہے ۔ سیاست کا گند گلی کوچوں میں اچھلنے دیجیے ۔
بظاہر سب ٹھیک ہے لیکن اندر ہی اندر علّامہ طاہر القادری اور تحریکِ انصاف میں بغض جنم لے چکا ہے ۔ علّامہ صاحب نے جب یہ کہا کہ اپنی محنت کا پھل کسی اور کو نہ کھانے دیں گے تو وہ کس سے مخاطب تھے ؟ اسی دوران عمران خان کراچی اور لاہور کے عظیم الشان جلسوں سے خطاب کر رہے تھے ۔ اسی بنا پر موجودہ سیاسی نظام کو ناقابلِ اصلاح قرار دینے والے واعظ نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ۔ دبے لفظوں تحریکِ انصاف پہ تنقید کی اور جلسوں کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ 
علّامہ صاحب کا طرزِ احساس غالباً یہ تھا کہ 30اکتوبر 2011ء کو لاہور میں عمران خان کے تاریخ ساز جلسے کے بعد نامی گرامی سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد اگر تحریکِ انصاف کا رخ کر سکتی ہے ۔ اگر ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں ان کے ووٹروں کی تعداد چند ہزار سے بڑھ کر 77لاکھ تک پہنچ سکتی ہے تو ان کی کیوں نہیں ؟ یہ سوچتے ہوئے انہوں نے سیاست کے خارزار میں کپتان کی سترہ سالہ جدوجہد، شوکت خانم اور کرکٹ کی دیوانی قوم کے لیے عالمی کپ کا تحفہ بھلا دیا۔ پھر یہ کہ عمران خان کا سورج اس وقت نصف النہار پہ چمکا تھا، جب اپنی بدترین کارکردگی کے طویل پیپلز پارٹی مر رہی تھی ۔ آج نون لیگ کو آزمایا جارہا ہے مگر عمران خان کی صورت میں ایک متبادل بھی موجود ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ مئی 2013ء کے الیکشن میں اگر بہتر امیدواروں کو وقت پر ٹکٹ دے دیے جاتے اور الیکشن کے دن پولنگ ایجنٹ ہر سٹیشن پہ تعینات ہوتے تو ڈیڑھ کروڑ ووٹ نون لیگ کی بجائے تحریکِ انصاف ہی کو ملنا تھے ۔ 
جہاں تک انقلاب کا تعلق ہے ، یہ باب آج کے جمہوری پاکستان میں بند ہو چکا۔ جہاں تک علّا مہ صاحب کے انتخابی مستقبل کا تعلق ہے ، وہ کتاب بھی جلد بند ہو جائے گی ۔ رائے عامہ کبھی بلند بانگ دعوے کرنے والے ایک مجہول آدمی کو اپنا لیڈر نہ چنے گی لیکن یہ بات آج ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی ۔ اقتدار کی جنگ میں رسوائی شاید سب سے بڑی سچائی ہے ۔ کچھ مل گئی ، باقی آئندہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں