"FBC" (space) message & send to 7575

یہ ہمارا مسئلہ ہے!

اس خطرناک اور اہم ترین مرحلے پر، نیٹو اور امریکی افواج جب افغانستان سے لوٹ رہی ہیں ، مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز نے ایک معرکتہ آرا اعلان فرمایا ہے : حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان ہمارا مسئلہ نہیں... اور امریکی دشمن ہمارے دشمن کیونکر ہو گئے ؟اگر یہی پیمانہ ہے تو ملّا فضل اللہ سمیت کنڑ اور نورستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے ہزاروں کارندے افغانستان اور امریکہ کا مسئلہ نہیں ۔ اس پسِ منظر میںتو افغان حکومت او رنیٹو فورسز سے پاکستان کو ہدف بنانے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ غلط ہے ۔ 
تیرہ برس سے پاکستان اور امریکہ ایک معاہدے کے تحت روبہ عمل ہیں ۔ افغان سرزمین پہ القاعدہ کی موجودگی اس کا سب سے بڑا سبب تھی ۔دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوّت سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے نتیجے میں یہ کیسے اور کیونکر وجود میں آئی، یہ علیحدہ بحث ہے ۔بہرحال ملّا محمد عمر کی طرف سے اسامہ بن لادن کو عالمی عسکریت پسندوں کی نشوو نما کے لیے اپنی سرزمین ٹھیکے پر دینے کا فیصلہ غلط تھا، جس کا نتیجہ افغان اور پاکستانی عوام نے بھگت لیا۔
امریکیوں کے خلاف افغان طالبان کی مزاحمت کو اس حد تک ہی درست قرار دیا جا سکتاہے کہ اپنے وطن کی آزادی کا حق انہیں حاصل ہے مگر پاکستانی سرزمین اس مقصد کے لیے قطعاً ،کسی صورت استعمال نہیں ہو سکتی ۔ یہ الگ بات ہے کہ افغان عوام نے 2014ء کے صدارتی الیکشن میں بھرپور حصہ لیا اور طالبان کی بندوق بردار شریعت سے اظہارِ نفرت کر ڈالا۔ یہ بات الگ کہ امریکی اور افغان فورسز پہ حملہ کرتے ہوئے ملّا عمر کے ''مجاہد‘‘ کسی بھی تقاضوں کو ہرگز ملحوظ نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعدا د میں بے گناہ شہری بھی ان کا نشانہ بنتے ہیں ۔ یہ الگ بات کہ یہ جنگجو ان پڑھ اور مذہب کی حقیقی تعلیمات سے نا آشنا ہیں ۔برسوں میں غلط فہمی کا شکار رہا لیکن اب یہ پوری طرح واضح ہے کہ پاکستانی طالبان سے کم سہی ، افغان جنگجو بھی جہاد نہیں فساد کے علم بردار ہیں اور اسلام کا چہرہ مسخ کر دینے کے ذمہ دار ۔ 
افغان سرحدی صوبوں میں تحریکِ طالبان کی بڑے پیمانے پہ موجودگی ایک حقیقت ہے، پاکستان ہمیشہ سے جس پہ معترض رہا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت مختلف جنگجو گروپوں کی موجودگی ہی امریکہ کی طرف سے شمالی وزیرستان آپریشن پہ اصرار کی بنیاد تھی ۔ اسی بنا پر یہ علاقہ ڈرون حملوں کا ہدف تھا۔ امریکی جنگ کے اختتام پہ مشیرِ خارجہ کا بیان پاکستان کے لیے مصائب کی بنیاد بنے گا۔
ہمارے پاس دو راستے ہیں ۔ پاک افغان سرحد مکمل طور پر سیل کرتے ہوئے غیر قانونی آمدورفت کا خاتمہ کر دیا جائے... اور یہ کوئی آسان کام نہیں ۔یہ بھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کم از کم سطح پر لاتے ہوئے وہاں بھارتی اثر و رسوخ کو بڑھنے دیا جائے ۔یہ اندازہ لگانا ناممکن نہیں کہ چند برس کے اندر اندریہ حکمتِ عملی پاکستان کے لیے کیا مصائب لے کر آئے گی ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی اپنی سرزمین سے سرحد پار حملوں کو ہر صورت روکنے کی کوشش کی جائے۔ دونوں ممالک کی بقا اسی میں ہے ؛لہٰذا دو نہیں ، ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے ۔ 
تین ماہ قبل کشمیری حریت لیڈروں سے پاکستانی ہائی کمشنر کی ملاقات پہ بھارت نے کشمیر مذاکرات معطل کر دیے تو ایک بھارتی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ، مشیرِ خارجہ نے یہ فرمایا تھا کہ اس ملاقات کے لیے وقت کا انتخاب شاید درست نہ تھا۔ ملکی میڈیا نے اس پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اسی کا ردّعمل ہے کہ سر تاج عزیز مسلسل متحرک ہیں ۔ گزشتہ ماہ بھارت کی طرف سے سرحدی جھڑپوں پر اقوامِ متحدہ کو انہوں نے ایک خط ارسال فرمایا ، اخبارات میں جس کا تذکرہ جلی حروف میں کیا گیا۔ یہاں تک تو سب درست تھا لیکن اب یہ جو انہوں نے اپنے اور افغان حکومت کے مسائل کی الگ تشریح فرمائی ہے ، اندیشہ ہے کہ پاک افغان روابط اور ملکی امن پہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ کیا سستی مقبولیت ہدف ہے؟ جیسا کہ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ''شہادت‘‘ کو وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے ''امن کا قتل‘‘ قرار دیا تھا۔ کیا یہ پینٹاگان کی طرف سے پاکستان کو بھارت کی ''برتر‘‘ افواج اور افغانستان کے خلاف جہادی گروپوں کو استعمال کرنے کے الزام کا ردّعمل ہے ؟ میں کہہ نہیں سکتا۔ ایک بات جو پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے، وہ یہ کہ فروری 1929ء میں پیدا ہونے والے 85سالہ مشیرِ خارجہ کو اب آرام کی ضرورت ہے۔ حوالے کے طور پر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی عبرت ناک داستان ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ 
آنے والے مہ و سال کیا رنگ دکھائیں گے ، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ افغان فورسز او رطالبان بڑے پیمانے پہ ایک دوسرے کا جانی نقصان کر رہے ہیں ۔ افغان آرمی اورسکیورٹی اہلکاروں کے سالانہ پانچ بلین ڈالر کے اخراجات کب تک اور کیسے پورے ہوتے رہیں گے ؟ یہ فوج کب تک برقرار رہ پائے گی ، جس میں شمالی اقلیتی گروہوں کے افراد اعلیٰ عہدوں پہ فائز اور پشتون اکثریتی باشندے ماتحت ہیں ۔ پاک فوج کی طرف سے افغان سکیورٹی اہلکاروں کی تربیت اور ایک انفینٹری بریگیڈ کی استعدادِ کار بڑھانے کی پیشکش افغانستان میں آخری حد تک بڑھے ہوئے بھارتی فوجی اثر و رسوخ کو کس حد تک محدود کر پائے گی ؟ کیا آنے والے برسوں میں طالبان اتحادی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ کیا ایک بار پھر بارود کے بل پہ وہ اپنی قوم کو ہانک لے جائیں گے ؟ افغانستان میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کے نتائج کیا ہوں گے ؟ فی الحال کچھ بھی توواضح نہیں ؛لہٰذا اپنی زبانوں کو لگام دیتے ہوئے، خاموشی سے ہمیں بدلتے ہوئے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے۔ اتنا بہرحال میں ضرور کہوں گا کہ مملکتِ پاکستان کی حدود میں ہر وہ مسلّح آدمی ، کسی بھی صورت جو قانون ہاتھ میں لینے یا سرحد پار کسی کارروائی میں شرکت کا ارادہ رکھتاہے ، ہمارا اپنا دردِ سر ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں