"FBC" (space) message & send to 7575

چین کی ہمسائیگی کے تقاضے

گزری دہائیوں کے خوفناک عالمی تنازعات اور افغان جنگ کے ان تیرہ برسوں میں ، جب ایشیا میں امریکہ دندناتاپھر رہا تھا، چین خاموشی سے ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے، بدلے ہوئے چینی روّیے پہ ا ب یقین ہی نہیں آتا۔ ایک دن اچانک اس نے کہا کہ وہ کشمیر پہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر سکتاہے ۔ پھر کہا کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری کے لیے وہ اپنا کردار جاری رکھے گا۔ صاف واضح ہے کہ امریکی واپسی کے ساتھ ہی پاکستان اورافغانستان میں امریکی کردار کم ، چینی بڑھ جائے گا۔ کیا یہ بے سبب ہے کہ چین ہی کی سربراہی میں ایک نئے عالمی بینک کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے ؟ چاند پہ رو بوٹ اُتارنے کے بعد اب اس نے مریخ پہ مشن بھیجنے کا اعلان کیا ہے ۔ پھر پاکستان سے گزر کر گوادر سے مشرقِ وسطیٰ تک رسائی اور دو عالمی شاہرائوں کے ذریعے ایشیا، یورپ اور افریقہ بھر کے تجارتی خطوں کے ساتھ منسلک ہونے کا منصوبہ ؟ 
کوئی شک نہیں کہ چین اب اقوامِ عالم کا رہنما بننا چاہتا ہے ۔ اپنے تئیں گراں خواب چینی پوری طرح سنبھل گئے ہیں ۔ 
اس رہنمائی کی نوعیت کیاہوگی ؟ کیا امریکہ کی طرح جنگ و جدل یا فقط معیشت ؟ فی الحال درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ؛البتہ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ نئی خوشحال چینی نسل اب کرّئہ ارض پہ اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔ معیشت اس کی امریکہ سے آدھی یعنی ساڑھے آٹھ ہزار ارب ڈالر ہے ۔ ٹیکنالوجی اور عسکری اعتبار سے عالمی طاقت سے ابھی وہ کوسوں پیچھے ہے ۔ امریکہ کے 640بلین ڈالر کے مقابل اس کا دفاعی بجٹ 188ارب ہے لیکن نشہ ہے کہ چڑھتا جاتاہے ۔ اکانومسٹ کی ایک رپورٹ ، امریکی اور چینی دفاعی اخراجات میں اتار چڑھائو کا جائزہ لینے کے بعد یہ اندازہ پیش کرتی ہے کہ 2035ء میں چینی دفاعی بجٹ امریکہ سے بڑھ جائے گا۔ کیا واقعی ایسا ہو سکے گا؟ 
آگے آگے دیکھیے ، ہوتا ہے کیا
خیر ، یہ نئی بات تونہیں ۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے روم اور پرشیا ہوں ‘خلافتِ راشدہ ختم ہونے کے بعد ساتویں صدی کی مسلم بادشاہت ہو، تیرھویں صدی کی منگول سلطنت ہو، ایک صدی پہلے کا برطانیہ اور جرمنی ہو، سوویت یونین ہو یا امریکہ ، ہمیشہ سے یہی تو ہوتا چلا آیا ہے۔ بعض ممالک معیشت، دفاع اورٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری اقوام پہ برتری حاصل کرنے کے بعد دنیا فتح کرنے کا خواب دیکھتے ہیں ۔ چند صدیوں تک ان کی ہیبت طاری رہتی ہے ۔ آخر تاریخ کے اوراق میں ایک ذرا سا ذکر ۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ چین کے یہ بدلتے ہوئے تیور ہمارے لیے کیا رنگ لائیں گے ؟ حکومت سنبھالنے کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف بیجنگ گئے تو گوادر سے منسلک ہونے کا منصوبہ ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ بظاہر چینیوں نے پاکستان میں سکیورٹی کی ابتر صورتِ حال پہ تشویش کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ تھی کہ ہر قیمت اور ہر صورت میں وہ یہ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے ۔ اب جب کہ ا س منصوبے کے خدو خال واضح ہوتے جا رہے ہیں ، یہ کہنا مشکل ہے کہ بزعمِ خود چین کے ایشیائی حریف بھارت کا ردّعمل کیا ہوگا؟ معیشت کا حجم ہو یا دفاعی اخراجات، بھارت چین سے چار پانچ گنا کمتر ہے لیکن قومی سطح پر اسے خود کو برتر سمجھنے اور ڈینگیں مارنے کا سنگین مرض لاحق ہے ۔ آسانی سے وہ چین کا یہ روّیہ برداشت نہ کر پائے گا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی تونہیں ۔ 
ادھر امریکہ اور چین کے درمیان عالمی آب و ہوا سے متعلق معاہدے (Climate Deal)پر امریکہ میں شور شرابا جاری ہے۔ اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں برس قبل جانوروں اور پودوں کے زیرِ زمین دفن ہو جانے سے بننے والے نامیاتی ایندھن (کوئلے ، تیل اور قدرتی گیس) کے استعمال سے فضا میں کاربن کی مقدار تیزی سے بڑھی ہے ۔ کرئہ ارض اور اس کے سمندروں کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے حمایت یافتہ عالمی ادارے Inter Governmental Panel on Climate Change نے یہ فیصلہ کیا کہ 2050ء تک بجلی کی زیادہ تر پیداوار کو کم کاربن خارج کرنے والے طریقوں پر منتقل کرنا ہوگااور 2100ء تک کوئلے تیل اورگیس کا استعمال مکمل طور پرختم ۔ کاربن میں کمی نہ کیے جانے پر درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے پہلے کے دور سے پانچ ڈگری بڑھ جائے گا اور یہ خوفناک ترین تباہی لا سکتاہے ۔ 1983ء سے 2012ء کے درمیان کی تین دہائیاں گزشتہ چودہ سو سال کا گرم ترین عرصہ رہی ہیں ۔ سمندروں میں تیزابیت بڑھتی جاتی اور قطبین کی برف پگھل رہی ہے ۔ پانی میں آکسیجن کی کمی سے مچھلیوں سمیت آبی حیات سکڑ رہی ہے ۔ جیسا کہ ایک دفعہ پہلے ذکر کیا تھا، بکری کی ایک خاص قسم Alpine Goatکے قدو قامت میں ایک چوتھائی کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔
تو صدر اوبامہ نے چین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت 2025ء تک امریکہ کاربن میں اضافے سے کرّئہ ارض کو آلودہ کرنے والی گیسوں کی مقدار میں 28فیصد تک کمی لائے گا۔ اب ڈیموکریٹ پارٹی کے اراکین چیخ رہے ہیں کہ یہ معاہدہ اپنے جلو میں بے روزگاری کا ایک طوفان لائے گا۔ یہ بھی کہ 2016ء کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار کے لیے صدر اوباما نے مسائل پیدا کر دیے ہیں ۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق اگلے صدارتی انتخابات میں ''ماحول کے تحفظ ‘‘ کا معاملہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ امیدوار کے درمیان فیصلہ کن ثابت ہو سکتاہے ۔گوکہ آب و ہوا میں بہتری سے متعلق امریکہ اور چین کا یہ معاہدہ بعض ماہرین کی نظر میں ایسی خامیاں رکھتا ہے ، جن سے دونوں ممالک اپنے اپنے ذاتی فوائد کے لیے مستفید ہو سکتے ہیں ۔ بہرحال ان مواقع پر امریکی صدر کے روبرو چینی صدر ژی جن پنگ کی جو تصاویر شائع ہوئی ہیں ، ان میں چینی صدر کے چہرے کے تاثرات اور بدل بولی نہایت اہم ہے ۔ 
کیا چین امریکہ جیسی عالمی طاقت بن پائے گا؟ اس ضمن میں دیگر ایشیائی ممالک، بالخصوص دنیا کی خوفناک ترین فوجی اور ایٹمی قوّت روس کے ساتھ اس کے معاملات نہایت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ پاکستانی سیاسی اور عسکری قوّتوں کو اس ساری صورتِ حال کا خاموشی سے جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام اور اپنے قدرتی وسائل کو لوٹ مار سے بچانے اور خود ان سے مستفید ہونے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ملک میں جلد از جلد عسکریت پسندی کے دیر پاخاتمے، پولیس اور الیکشن کمیشن سمیت اداروں کو ٹھوس بنیادوں پہ استوار کرنا چاہیے۔ مجرموں میں خوف پیدا کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزا پہ عمل پہلا قدم ہو سکتاہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں