عجیب لیڈر ہیں ۔بیرونِ ملک آرام دہ زندگی گزارتے ہوئے اچانک قوم کی تقدیر بدلنے کا خیال آتا ہے ۔ وطن تشریف لاتے ہیں تو ایسے کہ رَن اور چرخِ کہن سمیت سبھی کچھ کانپ رہا ہوتاہے ۔ حکمران طبقے ، اشرافیہ کو نیست و نابود کرنے کے دعوے ہوتے ہیں ۔ بات بن نہیں پاتی ۔اچانک ایک دن معلوم ہوتاہے کہ سرکار کی صحت جواب دے گئی ہے ۔ایسی ایسی بیماری دریافت ہوتی ہے ، امریکہ سے نزدیک کے کسی ملک میں جس کا علاج ممکن نہ ہو ۔ ع
ساری دنیا کے مریضوں کو شفا دے یارب
پرویز مشر ف کے خلاف مقدمہ قائم ہو ا توانکشاف ہوا کہ 9عد دبیماریاں لاحق ہیں ۔ زندگی خطرے میں ہے ۔ اب علّامہ طاہرالقادری کو ڈاکٹروں نے بیرونِ ملک علاج کا مشورہ دیا ہے ۔ انقلاب کا فیصلہ کرنے سے قبل ، آدمی کو مکمل طبّی معائنہ کرانا چاہیے ۔ قوم کوبھی چاہیے کہ اندھا دھند پیروی کی بجائے پہلے اپنے لیڈرانِ کرام سے ہیلتھ سرٹیفکیٹ مانگ لیا کرے ۔
14اگست کا دھرنا شرو ع ہوا اور استعفے کے سوا حکومت نے سبھی شرائط تسلیم کر لیں تو ہم سب کپتان کو غلط کہہ رہے تھے ۔ اب یہ پوری طرح واضح ہے کہ تحریکِ انصاف کو دھوکا دیا جارہا تھا اورمظاہرین کو واپس بھیجنا مقصود تھا۔ وفاقی وزرا کا موقف یہ ہے کہ عدالتی کمیشن بنانے کے بعد اس پہ اثر انداز ہوا جا سکتاہے اور نہ آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت کسی خفیہ ادارے سے تحقیقات پہ اسے مجبور کرنا ممکن ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ راز ان پہ کب کھلا؟ علّامہ طاہر القادری کے واپس جانے اورتحریکِ انصاف کے مظاہرین کم ہونے سے پہلے یا اس کے بعد ؟ مذاکرات کے دوران تحریکِ انصاف کے نمائندوں سے یہ وعدہ کیوں کیا گیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی والوں کو کیوں معلوم نہ تھا کہ عدالتی کمیشن کو احکامات جاری نہیں کیے جاتے ؟
کج شہر دے لوگ بھی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی؟
عمران خان نے یہ کارنامہ کیا کہ آرمی چیف معاملے میں شریک ہوئے تو ان کی ضمانت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ارشاد فرمایا کہ میں استعفے کی شرط سے کسی قیمت پر دستبردار نہ ہوں گا۔ بعد میں تو خیر علّامہ طاہر القادری ، حکومتی اتحادیوں اوروزیرِ اعظم نے اس ضمن میں ایسے اعلانات فرمائے کہ فوج ایک بار پھر معاملے سے لا تعلق ہو گئی ۔
خیر یہ قصہ اس طرح ختم ہونے کا نہیں ۔ کچھ نہ کچھ اس میں مثبت نتائج کی امید بھی ہے ۔ مثال کے طور پر تیل کا قصہ سنیے ۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت 115ڈالر فی بیرل سے کم ہوتے ہوتے 70ڈالر تک آپہنچی ہے ۔ یہ تقریباً چالیس فیصد کمی ہے ، تیل برآمد کرنے والے ممالک جس پہ سر پیٹ رہے ہیں ۔ روسی وزارتِ خزانہ کے مطابق یورپی و امریکی پابندیوں اور تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے اسے 140بلین ڈالر سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے ۔ گزشتہ ہفتے اوپیک ممالک کے اجلاس پہ پوری دنیا کی نظریں مرکوز تھیں ۔ کم و بیش سبھی تیل کی پیدا وار میں کمی چاہتے تھے لیکن تیل پیدا کرنے والے بعض ممالک نے انکار کر دیا۔ خیر، عالمی منڈی میں چالیس فیصد کے جواب میں پاکستان میں محض 25فیصد کمی ہوئی ہے ۔ 113سے 84روپے فی لیٹر کا یہ سفر بھی تاخیر سے طے ہوا ، اس پر بھی حکومت بغلیں بجا رہی ہے ۔ تحریکِ انصاف کا پیدا کردہ دبائو نہ ہوتا تووہ دس پندرہ فیصد پہ اکتفا کرتی ۔
انتخابی دھاندلی کا معاملہ دیکھیے اور اس پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا گٹھ جوڑ دیکھیے ۔ الیکشن کمیشن نے جب مقناطیسی سیاہی استعمال کرنے کا اعلان کیا تو دعوے کچھ اس قسم کے تھے کہ دو چار صدیوں بعد بھی انگوٹھے کے نشان جانچنا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوگا۔ اربوں روپے کی وہ سیاہی کہاں گئی اور کس نے اس سے اپنا منہ کالا کیا، یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ پھر چیئرمین نادرا طارق ملک کو مستعفی ہوکر بیرونِ ملک روانہ ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے بعد اخبارات میں خبریں چھپوائی گئیں کہ نہ تو انگوٹھے کی تصدیق ممکن ہے اور نہ ہی مقناطیسی سیاہی کی عمر چند گھنٹے سے زیادہ ہوتی ہے ۔میری محدود سی معلومات یہ ہیں کہ دورِ جدید کے کمپیوٹر سالہاسال میں شکل و صورت میں تبدیلی رونما ہونے کے بعد بھی ایک آدمی کا چہرہ تک شناخت کر سکتے ہیں ۔
مختصرا ً یہ کہ حکومت دھاندلی کی تحقیق اور مستقبل میں اس کی روک تھام کا قطعاًکوئی ارادہ نہیں رکھتی ...اور اس کے بغیر الیکشن ایک لاحاصل مشق ہے ۔ تحریکِ انصاف او رنون لیگ کے موجودہ تصادم کے نتیجے میں دھاندلی کے تدارک کا کوئی نظام بن پایا تو یہ شر کے بطن سے بہت بڑی خیر برآمد ہونے کے مترادف ہو گا۔اور پھر یہ جو نون لیگ میں ایک بڑ اتحرّک ہے ، یہ جو ایک کم از کم کارکردگی ہے ، یہ سستی روٹی ، یہ میٹرو اور یہ یوتھ لون سکیم، سبھی تحریکِ انصاف ہی کے طفیل ہے ۔
2013ء کے انتخاب سے قبل میں نے ایک مضمون لکھا تھا ''1999ء اور 2013ء میں کیا فرق ہے‘‘ یہ تصویر بنانے کی کوشش کی تھی کہ نون لیگ جیت گئی تومیڈیا اور عدالتی آزادی کے اس ماحول میں ، دہشت گردی اور تحریکِ انصا ف کے پید اکردہ چیلنجز میں میاں محمد نوا ز شریف کا اقتدار کس قدر بد مزہ ہو جائے گا۔ سانحہ ء ماڈل ٹائون کا ملبہ پولیس پر گرانے کے پسِ منظر میں حکومت نے جب اسلام آبا د دھرنے کے شرکا کو منتشر کرنے کا حکم دیا تو افسروں نے تحریری احکامات کا مطالبہ ، بصورتِ دیگر کارروائی سے انکار کر دیا تھا۔ایک دن ایسی فضا بھی بن سکتی ہے کہ ایماندار اور فرض شناس افسروں کے لیے ناجائز احکامات رد کرنا بہت آسان ہو جائے۔اس غلیظ اور گلے سڑے نظام میں یہ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہوگا۔
موجودہ تصادم کا آخری نتیجہ کیا ہوگا؟ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے ؛البتہ لگتاایسا ہے کہ قدرت کے نادیدہ ہاتھ نے تحریکِ انصاف کو ایک لٹھ کی صورت میں تھام رکھا ہے اور نون لیگ کو اس سے ہانکے لے جارہی ہے ۔ آئیے اس منظر سے محظوظ ہوں ۔