"FBC" (space) message & send to 7575

آستین کا سانپ

میں نے اپنے گریبان میں جھانکا اور شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ اپنا وجود مجھے ایک سانپ کی مانند لگا۔ پاکستانی معاشرے کی آستین کا سانپ! 
کل کینیڈا میں ایک دوست سے دہشت گردی پر بات ہوئی۔امریکہ اور برطانیہ کی طرح وہاں بھی سرکاری اور نجی سکولوں اور ہسپتالوں سمیت ہر ادارے اور ہر عمارت کا ایک سیفٹی اینڈ سکیورٹی پلان ہوتاہے ۔ ہرملازم اور افسر کو یہ بتایا اور مشق کرائی جاتی ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد یا پاگل گھس آئے تو اس کی ذمہ داری کیا ہوگی ۔ کس شخص کو کیا کرنا ہوگا۔ ہر عمارت چھوٹے چھوٹے یونٹس میں تقسیم ہے جس کے اختتام پر ایک مضبوط دروازہ نصب ہے ۔ہسپتالوں کی بڑی بڑی گیلریوں میں بھی یہ دروازے موجود ہیں ۔ ہنگامی صورتِ حال میں انہیں بند کر دیا جاتا ہے تاکہ حملہ آور کو ایک مختصر سے حصے تک محدود کیا جا سکے ۔ایک ایسے سائونڈ سسٹم کے ذریعے ، جس کی آواز جگہ جگہ نصب سپیکروں کے ذریعے ہر فرد تک پہنچ سکے ،ملازمین کو سیفٹی اینڈ سکیورٹی پلان پہ عمل کا حکم دیا جاتاہے ۔
مجھے افسوس ہونے لگا۔ اس لیے کہ پشاور سکول میں دروازے اس قدر نازک تھے کہ دہشت گردبا آسانی انہیں توڑ کر اندر داخل ہو ئے اور قتلِ عام کیا۔ یہ احتیاطی تدابیراختیار کرنے کے لیے نہ تو کوئی خاص سرمایہ درکار ہے اور نہ ہی اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی ۔ میں نے کہا: مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس کا دل چاہتاہے ، منہ اٹھا کر کرائے کے گھر میں سکول کھول لیتا ہے ۔ اصل ہدف پیسے کمانا ہے ۔ بچّوں کی حفاظت نہ تو ترجیحات میں شامل ہے اور نہ ہی مقامی تھانے سے کوئی حفاظتی اقدامات کا جائزہ لینے آتاہے ۔ 
چوہدری نثار علی خاں نے درست کہا کہ 90فیصد مدارس کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ باقی دس یا پانچ فیصد ان کے لیے محفوظ پنا ہ گاہوں کا کام کرتے ہیں ۔ عراق کی''دولتِ اسلامیہ‘‘سے لے کر القاعدہ اور پاکستان کی تحریکِ طالبان تک ،دہشت گرد وں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ۔ لال مسجد آپریشن کے دوران کئی دن تک اندر سے خوفناک ترین مزاحمت کی گئی ۔آپریشن میں بہت بڑی حماقتیں ضرور کی گئیں لیکن اندر گولہ بارود کا ذخیرہ اور بہترین تربیت یافتہ جنگجوموجود تھے۔ عدالت کے حکم پر مدرسہ دوبارہ تعمیر ہوا اوروہی ''مولانا‘‘عبد العزیز خطیب کے عہدے پر فائز ہوئے، اپنے بھائی کے ساتھ مل کر جو اس کے ذمہ دار تھے ۔ 
نون لیگ کو اصرار ہے کہ اس کا مینڈیٹ دھاندلی سے پاک ہے لیکن ہر دوسرے دن اسے قومی اتفاقِ رائے درکار ہوتاہے ۔ آل پارٹیز کانفرنسیں ، قومی ایکشن پلان کمیٹی اوروغیرہ وغیرہ۔ سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھتی ہیں۔ پھر انہیں اپنے اپنے زخم یاد آنے لگتے ہیں ۔ ایک پارٹی 92ء کا آپریشن یاد کرتی ہے۔ دوسری مدارس میں اصلاحات کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیتی ہے ۔ یہی مذہبی جماعتیں فرقہ پرستی کا موجب ہیں ۔ نبی آخرالزماں ؐ کے ارشاد کے مطابق دانا وہی ہو سکتاہے ، جس کے پاس اپنے زمانے کا علم ہو۔ لیکن یہاں مدارس کی مانیٹرنگ کا کوئی انتظام ہے ہی نہیں ؟
عسکریت پسند اکثر سکیورٹی اہلکاروںکی وردی زیبِ تن کیے ہوئے حملہ آور ہوتے ہیں ۔ یہ وردیاں ، لانگ شوز ، ٹوپیاں اور بیج با آسانی ملک بھر میں دستیاب ہیں ۔ سالِ گزشتہ راولپنڈی کے راجہ بازار میں فرقہ وارانہ تصادم ہو ا ۔ عین کرفیو کے دوران راولپنڈی کی ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے گارڈ کی رائفل چوری ہو گئی ۔ پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی کا یہ ملازم وردی زیبِ تن کیے ہوئے اپنے ہوٹر لگے ہوئے موٹر سائیکل پر بازار گیا ،چھ ہزار روپے کی رائفل خریدی اور لائسنس پر درج نمبر اس پر لگوایا ۔وردی اور ہوٹر دیکھ کر کسی نے اس سے ایک سوال تک نہ کیا۔ 
امریکہ کے خلاف تقاریر کرتے ہوئے ملک میں ہر قسم کا جھوٹ بولنے اور عوامی جذبات بھڑکانے کی کھلی آزادی ہے ۔ مثلاً یہ کہ ایک شب امریکی خوامخواہ پاکستان میں گھس آئے ۔آٹھ کروڑ خواتین میں سے ایک پرامن گھریلو لڑکی کو وہ اٹھا کر لے گئے ۔یہ بات درست ہے کہ ایک کی بجائے اسے تین خوفناک سزائیں دی گئیں ۔ جسمانی اورجنسی تشدد، بچّوں سے محرومی اور پھر طویل قید لیکن یہ سفید جھوٹ ہے کہ ایک عالمی دہشت گرد تنظیم سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ 
ایک ٹی وی پروگرام کے نمائندوں نے ریلوے کے ذریعے اسلحہ ایک شہر سے دوسرے میں بھجوایا اوراسے وصول کر کے دکھایا۔ پختون خوا میں جیل پر حملے اور پشاور سکول پر حملے کی اطلاع بہت پہلے موصول ہو چکی تھی لیکن اسے روکا نہ جا سکا۔ کیا کسی وزیر مشیر یا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے کسی ذمہ دار کو برطرف کیا گیا؟ ٹیکنالوجی میں برتری کے بغیر انسدادِ دہشت گردی ممکن ہی نہیں ۔ دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں امریکہ مخالف جذبات پورے عروج پر ہیں لیکن نائن الیون کے بعد وہاں ایک بھی حملہ نہ ہو سکا۔ اس نے دنیا بھر میں موبائل، فیس بک ، ای میل اور سکائپ سمیت، بات چیت کے ذرائع کی کڑی نگرانی کی ۔
دہشت گرد ذرائع آمدرفت استعمال کرتے ہیں ۔ وہ کرائے کے مکانوں میں ٹھہرتے ہیں ۔ پولیس کے محکمے میں ، بالخصوص پنجاب اور کراچی میں میرٹ پر تقرر اور تبادلے کا کوئی تصور نہیں ۔ سیاسی مداخلت اپنے عروج پر ۔ گوریلا جنگ اور دہشت گرد ی کے شکار پاکستان میں عدالتیں انسانی حقوق کی جنگ لڑنا چاہتی ہیں ۔ پولیس تفتیش ٹھیک نہیں کرتی ۔ گواہ منحرف ہو جاتے اور دہشت گرد دندناتے پھر تے ہیں ۔ 
خدا خدا کرکے موبائل سموں کی تجارت میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن ماضی میں جاری شدہ نمبراسی طرح چل رہے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر فرد اپنی سم کا مکمل ذمہ دار ہوتاہے اور دوسرا نمبر حاصل کرتے ہوئے اسے دانتوں پسینہ آجاتاہے ۔ یہاں مجھے ایک خیال آیا۔ متعلقہ ویب سائٹ پر میں نے اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کیا ۔ میرا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جائوں ۔ جی ہاں، میرے اپنے نام پر چھ سمّیں درج ہیں ۔ چار کا تعلق ایک ہی نیٹ ورک سے ہے ۔ اس کے باوجود ہے کہ دو سال قبل ایک کے سوا میں سب کو بند کرانے کی تحریری درخواست جمع کرا کے آیا تھا۔ 
پی ٹی اے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی لمبی تان کر سو رہے ہیں ۔
یہ ہے دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں