"FBC" (space) message & send to 7575

اختتام

دسمبر کے وسط میں دنیا بھر کے 20ہزار سے زائد سائنسدان امریکن جیولوجیکل یونین کے اجلاس میں اکٹھے ہوئے ۔ کرّہ ٔ ارض اورانسان کو درپیش قدرتی خطرات کے ضمن میں سائنسی تحقیقات پہ بات کی گئی ۔ ماضی میں کرّہ ٔ ارض کی آ ب وہوا میں تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا اور ساتھ ہی ان مسائل پر بھی بات ہوئی ، جو انسان کے پیدا کردہ ہیں۔ اجلاس کے اختتام پر جو اعلامیہ پیش کیا گیا، وہ مستقبل قریب میں رونما ہونے والے اس سانحے کے گرد گھومتا ہے، ہماری اکثریت جس سے ناواقف ہے۔ آب و ہوا میں تیز رفتار تبدیلی سے انسان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سب سے بڑا اور فوری خطرہ یہ ہے کہ مغربی انٹارکٹکا میں برف کے عظیم الشان مجموعے منہدم ہو رہے ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر سمندروں کی سطح میں بارہ سے سولہ فٹ تک کا اضافہ متوقع ہے ۔ جزائر پر مشتمل ممالک اور ساحل پہ آباد بے شمار شہروں کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے ۔ یہ تباہی دوسے دس صدیوں کے درمیان کسی بھی وقت وقوع پذیر ہو سکتی ہے ۔ بظاہر یہ ایک بڑی مدّت ہے لیکن زمینی اور کائناتی پیمانوں پر دو سو سے ایک ہزار سال کا وقت پلک جھپکنے میں گزر جاتاہے ۔ 
انٹارکٹکا سات برّاعظموں میں سے ایک ہے ۔ رقبے میں یہ یورپ اور آسٹریلیا سے بڑا ہے ؛اگرچہ سخت ترین سردی کی وجہ سے وہاں زندگی ممکن نہیں ۔ مختلف ممالک کے تحقیقاتی مشن اس غیر آباد زمین پہ جاتے اور تجربات کرکے لوٹ آتے ہیں ۔ یہ زمین کے انتہائی جنوب یا نیچے کا حصہ ہے ۔ جنوب کی طرح زمین کے شمال یا اوپر کے حصے میں بھی سردی سخت ہوتی ہے ۔ آپ کرّہ ٔ ارض پہ پانی کی مقدار کو کم نہیں کر سکتے۔ اسے گرم کر کے اڑادیا جائے تو بارش کی صورت میں وہ لوٹ آتاہے ۔ البتہ شما ل اور جنوب میں جمے ہوئے سمندروں اور برف کے ایک پورے برّاعظم نے پانی کی سطح کم کر رکھی تھی ۔ 
سائنسدان متفق ہیں کہ حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے کہ مغربی انٹارکٹکا میں برف کا انہدام روکنا ممکن نہیں ۔ یہ ایک ایسی عمارت ہے، جس کی بنیاد میں بڑی دراڑیں پڑ چکیں ۔ خواہ اب درجہ ٔ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی سرگرمیوں کو مکمل طور پر روک بھی دیا جائے ، یہ حادثہ ہو کے رہنا ہے ۔ کرّہ ٔ ارض کا ماضی گواہی دیتا ہے کہ ہر قسم کے حالات سے وہ بخیر و خوبی گزر جاتی ہے۔ کبھی بلند درجۂ حرارت اور کبھی برفانی ادوارلیکن پہلی بار ہے کہ ایک ذہین جانور کی سرگرمیاں مصنوعی طور پر آب و ہو امیںدیرپا تبدیلی کا باعث بنی ہیں۔ پہلی بارہے کہ حادثے کے خوف نے اس ذہین جانور پہ خوف طاری کررکھا ہے ۔ فلپائن کی طرح کے جزائر پہ آباد ممالک امریکہ ، چین اور بھارت جیسے ممالک پہ چلّا رہے ہیں ، جو درجہ ٔ حرارت میں اضافے کا سب سے بڑا باعث ہیں ۔
عالمی آب و ہو امیں اس قدر بڑی تبدیلیاں رونما ہو تی رہی ہیں ، جو ہمارے تصور سے بھی باہر ہیں ۔ شمالی کینیڈا کے برف زاروں میں ، جہاں سفید ریچھ جیسے اکّا دکّا جانور ہی پائے جاتے ہیں ، بڑے قد کاٹھ کے اونٹوں کی باقیات ملی ہیں ۔ سائنسدان اس پہ سخت حیرت کا شکار ہیں ۔ اندازہ ہے کہ اس دور میں شمالی کینیڈا کا درجۂ حرارت آج کی نسبت کافی بلند تھا۔ ماضی میں سائنسی حلقے اس بات کی نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ اونٹ کا جسم صحرا کے علاوہ برف کی سختیاں بھی جھیل سکتاہے ۔ اس کے سیدھے پائوں ریت کی طرح برف پر بھی چلنے میں مددگار ہوسکتے ہیں ۔ چربی سے بھری ہوئی کوہان سخت سردی میں جسم کے لیے توانائی کا ذریعہ ہوگی ۔اب معلوم ہو اہے کہ ابتدا میں وہ برف ہی پر آباد تھا۔ ڈی این اے کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ آج کے صحرائی اونٹ اس برفانی جانور کی نسلیں ہیں ۔ قد کاٹھ میں وہ ان سے تیس فیصد بڑا تھا۔ 
آدمی کی جو سرگرمیاں درجۂ حرارت بڑھا رہی ہیں ، ان میں سرِفہرست توانائی کا استعمال ہے ۔ کوئلہ، تیل اور ـگیس جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہائوس گیسیں فضا میں شامل ہو رہی ہیں ۔ امریکی ریاست نیو میکسیکو میں 40,000قدرتی گیس کے کنویں ہیں۔ان سے خارج ہو نے والی میتھین گیس فضا میں امریکی ریاست ڈیلی وئیر کے برابر ایک عظیم الشان بادل پیداکر چکی ہے ۔یہ بادل کم و بیش ڈیڑھ سو کلومیٹر لمبا اور تیس چالیس کلومیٹر چوڑا ہے۔چین کے ساتھ ان گیسوں میں کمی کا معاہدہ کرنے والی اوبامہ انتظامیہ اگلے ماہ اس ضمن میں اقدامات کا اعلان کرے گی ۔ کانگریس کے وہ نمائندے ، جن کے مفادات تیل و گیس انڈسٹری سے واستہ ہیں، ابھی سے وائٹ ہائوس کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ ری پبلکن پارٹی ہی مستقبل کی حکمران جماعت ہے۔ اگلے امریکی الیکشن میں آب و ہو اکا مسئلہ انتخابی مہم کا بڑا حصہ ہوگا۔ 
درجہ ء حرارت میں پانچ سے دس ڈگری کا اضافہ زمین پر بدترین تباہی کا باعث بن سکتاہے ۔ پچیس کروڑ سال پہلے دنیااپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزری تھی ۔ عالمی درجہ ء حرارت میں دس ڈگری کے اضافے سے سمندروں کے 96فیصد جاندارہمیشہ کے لیے ناپید ہو گئے تھے ۔ اسے پرمین دور (Permian Mass Extinction)کہا جاتاہے ۔ اس دور میں زمین کے درجۂ حرارت میں صرف دس ڈگری کا اضافہ ہو اتھا۔ 
کرّہ ٔ ارض کی تاریخ میں پہلی بار ہزاروں جانوروں میں سے ایک ، بنی نوعِ انسان اس قدر بڑی تبدیلیوں کا باعث ہے ۔ بڑے شہر بساتے ہوئے ، اس نے جانوروں کی بے شمار اقسام کو ہمیشہ کے لیے ختم کر ڈالا ہے۔ بڑھتے بڑھتے اس کی تعداد سات ارب سے تجاوز کر چکی ۔ زیرِ زمین توانائی کے ذخائر اور معدنیات تیزی سے وہ استعمال کر رہا ہے ۔ باریک بینی سے دیکھیے تو معاملے کا ایک روحانی پہلو بھی ہے اور وہی سب سے اہم ۔ انسانی کاسہ ء سر میں عقل کو جنم دینے والا خدا خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ کرّہ ٔ ارض پہ وہ بڑی تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔ وہ جانتا تھا ، اس زمین پر کب تک اسے رہنا ہے اور اس نے بڑی ناپ تول کے ساتھ اس کا بندوبست کیا تھا۔ چودہ سو سال پہلے آخری پیغمبرﷺ گزر چکے اور پیغام مکمل ہوا۔ ایسا لگتاہے کہ انسانی عقل و جبلّت کی آزمائش کے یہ آخری ایّام ہیں۔ شاید اگلی چند صدیوں میں یہ خوبصورت کہانی ختم ہو جائے گی ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں