نو گیارہ کو امریکہ میں دہشت گرد حملے ہوئے تو ایک ہفتے بعد صدر بش آئینی ترمیم پہ دستخط کر رہے تھے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان نے دہشت گردی کے معاملے میں صدر کوایسے غیر معمولی اختیارات سونپ دیے تھے کہ نائن الیون سے قبل جن کا تصور بھی محال تھا۔ آئین کے تحت صدر بش کو یہ اجازت دی گئی کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگان پہ حملے کے ذمہ دار دنیا کے جس ملک میں بھی موجود ہوں ، امریکی افواج کو وہ ان پر حملے کا حکم دے سکتے ہیں ۔ یہی نہیں ، آئندہ ایسے کسی حملے کاخطرہ درپیش ہو تو واقعہ پیش آنے سے قبل ہی وہ ایسے افراد پر چڑھائی کا اختیار رکھتے تھے ۔ یہ امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف تھا۔ کسی دوسری ریاست میں مجرموں پر حملہ اس کی خود مختاری کے خلاف ہوتا ہے ۔عالمی قوانین کے تحت ایسے ملک سے مطالبہ کیا جاتاہے کہ وہ خود ایسے افراد کو گرفتار کرے لیکن خصوصی حالات اور ملکی مفاد میں ایسے انتہائی غیر معمولی اقدامات کی اجازت دے دی گئی ۔
برطانیہ کی حکمران لیبر پارٹی نے چند برسوں کے دوران پانچ خصوصی قوانین کے ذریعے دہشت گردوں کے بنیادی حقوق معطل کر دیے ۔ ادھر پاکستان میں سیاسی لیڈروں ، بالخصوصی مذہبی جماعتوں کو فوجی عدالتوں پہ اعتراض ہے ۔ اس کے باوجود ہے کہ دو بار وزارتِ عظمیٰ پہ فائز رہنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ ملزمان میں بیت اللہ محسود بھی شامل تھا لیکن سات برس میں مقدمے کی صرف دس فیصد سماعت مکمل ہوئی ۔اہم گواہان ، حتیٰ کہ ایک وکیل بھی قتل کر دیا گیا۔اپنی نوعیت کا یہ واحد معاملہ نہیں ۔ ملک کی چند نامی گرامی کالعدم تنظیموں میں سے ایک کے سربراہ پر قتل کے مقدمات قائم ہیں ۔ یکے بعد دیگرے گواہان کی ایک پوری ٹیم قتل کر دی گئی ؛لہٰذا بے قراری سے وہ اپنی رہائی کا منتظر ہے ۔ جہاں تک مذہبی سیاسی لیڈروں ، مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق اور سراج الحق کا تعلق ہے ،دور دراز کے مدارس الگ، وہ لال مسجد کے مولانا عبد العزیز کی مذمّت بھی نہ کر سکے۔ اپنے مرحوم بھائی کے ساتھ وہ سینکڑوں کم عمر طلبہ کو اس راہ پر لے جانے کے ذمہ دار تھے ، جس کے نتیجے میں قانون کو انہوں نے اپنے ہاتھ میں لیا۔ چینی خواتین کو انہوں نے گرفتار کیا۔بہرحال مفتیان ِ کرام اسلام آباد کی تاریخ کے سب سے خونی واقعے کے ذمہ دار مولوی عبد العزیز کی مذمّت بھی نہ کر سکے ۔کم عمر طلبہ و طالبات کا خون اس میں بہا اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام رسواہوا ۔
فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دے کر رضا ربّانی آبدیدہ ہوئے اور یہ کہا: سینیٹ کے پچھلے بارہ سال میں پہلے کبھی انہیں اس قدر شرمندگی محسوس نہ ہوئی ۔ سول کی بالادستی کے حوالے سے ان کا یہ جذبہ قابلِ تعریف ہے لیکن یہاں کچھ سوا ل اٹھتے ہیں ۔
چھ دہائیوں تک ترکی پر مصطفی کمال کی وارث فوج نے آہنی گرفت قائم رکھی ۔ یکے بعد دیگرے کئی مارشل لا لگے اور منتخب وزیرِ اعظم کو پھانسی چڑھا دیا گیا ۔اسلام پسند رجب طیب ایردوان نے اقتدار سنبھالا تو اسلام مخالف قوانین اور جمہوریت کی قاتل فوج پہ حملہ آور ہونے کی بجائے انہوںنے معیشت سے آغاز کیا۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایک بار یہ کہا :ایک زمانہ تھا کہ ترکی میں لباس کا ایک جوڑا خریدنے کے لیے نوٹوں سے بھرا ہوا ایک بریف کیس درکار ہوتا تھا۔ رجب طیب اردوان نے کایا پلٹ دی ۔ (بعد میں وہ خود پسندی اور کرپشن کی دلدل میں دھنس گئے ۔ دو بار وزیرِ اعظم کے فرائض انجام دینے کے بعد اقتدار کی خاطر ترکی میں صدارتی نظام متعارف کرایا ۔ 600ملین ڈالر کا صدارتی محل تعمیر کرایا۔ طویل دورِ اقتدارحکمرانوں کو کس طرح گمراہ کرتاہے ، یہ ایک الگ کہانی ہے )۔ بہرحال ملک کی معاشی تعمیر کے بعد نہ صر ف یہ کہ ترک حکمران نے اسلامی قوانین متعارف کرائے بلکہ مارشل لا ئوں کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا ۔ کئیوں کو سزائے موت ملی ۔ ایک سابق ترک آرمی چیف کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔
اب خود کو دیکھیے ۔ صدر پرویز مشرف کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد رضا ربّانی کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کا ایک وفد آصف علی زرداری سے ملا ۔ پھر ایک پریس کانفرنس میں تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ انہوں نے یہ فرمایا: ہماری درخواست پہ زرداری صاحب نے صدر بننے پہ آمادگی ظاہر کر دی ہے ۔ یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان ،ر اجہ پرویز اشرف،مخدوم امین فہیم اورمخدوم شہاب الدین سمیت پیپلزپارٹی کے وزرائے اعظم اور مرکزی لیڈروں پر بڑے پیمانے کی کرپشن کے مقدمے قائم ہوئے ۔ ایفی ڈرین، حج کرپشن ، کرائے کے بجلی گھر وغیرہ وغیرہ ۔میمو سکینڈل پیش آیا ۔مضحکہ اڑانے والے جسے ڈرامہ قرار دیتے ہیں اور یہ بھلا دیتے ہیں کہ اپنا موبائل عدالت میں پیش کرنے کی بجائے حسین حقانی نے مفرور ہونے کو ترجیح دی ۔
صدر زرداری کے عہد میں بیرونی قرضے60ارب ڈالر سے140ارب تک جا پہنچے ۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، بے نظیر قتل کیس کی بھی صرف دس فیصد سماعت ہو سکی ۔ پولیس تفتیش ٹھیک نہ کرتی ،کچھ گواہ منحرف ، کچھ قتل ہو جاتے ۔ ججوں کو دھمکیاںارسال کی جاتیں ۔ اوّل تودہشت گرد صاف بچ نکلتے ۔ بدقسمتی سے کسی کو سزا سنائی جاتی تو صدر آصف علی زرداری کے احکامات پر سزائے موت معطل تھی ۔ اپریل 2012ء میں بنّوں جیل توڑ کے چار سو مجرم رہا کرالیے گئے ۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں پولیس کو بہتر تربیت اور اسلحہ فراہم نہ کیا گیا۔پیپلز پارٹی اور اتحادیوں پہ الزام لگا کہ بلٹ پروف جیکٹوں اور بارود کی نشاندہی کرنے والے سکینروں میں روپیہ کمایا گیا۔ اسی قسم کا ایک الزام اب حکومتِ سندھ پر عائد کیا جارہا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے دور میں کراچی میں قریب پانچ ہزار افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو ئے۔ رضا ربّانی خاموش رہے ۔ ان پانچ برسوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں ایک فیصد کمی بھی ممکن نہ ہوئی ۔ الیکشن قریب آئے تو ایران کے ساتھ گیس فراہمی کے معاہدے پر دستخط کر دیے گئے ؛حالانکہ سخت ترین عالمی پابندیوں کے شکار ملک سے اس کی درآمد ممکن ہی نہ تھی ۔ بھارت کی طرز پر قطر سے ایل این جی خریدی جاتی تو توانائی کے بحران میں قابلِ ذکر کمی ممکن تھی ۔ گیس اور بجلی کی عدم دستیابی سے فیکٹریاں اورکارخانے بند ہونے لگے ۔ لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوئے ۔ سکیورٹی کی حالت یہ تھی کہ جلی حروف میں درجنوں خبروں اور مضامین میں الزام لگایاگیاکہ دبئی میں پاکستانی سفارتخانہ چھٹی کے دن غیر ملکیوں کو ویزے جاری کرتاہے ۔ یہ بھی کہ ایک پورے جہاز کے مسافر سفری دستاویزات دکھائے بغیر رات کے اندھیرے میں اسلام آباد میں داخل ہوگئے ۔ کسی نے تردید کی زحمت تک نہ فرمائی ۔ریڈ پاسپورٹ ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے ۔ مملکتِ خداداد اندھیر نگری ، چوپٹ راج بن گئی ۔
سینیٹ میں رضا ربّانی کے بارہ برسوں میں یہ پانچ سال بھی شامل تھے ، جن کانوحہ میں نے قلمبند کیا ہے ۔ رضا ربّانی نے اعتراف کیا ہے کہ تب بھی انہیںاتنی شرمندگی محسوس نہ ہوئی ، جتنی کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر ۔ حالات و واقعات گواہی دیتے ہیں کہ وہ سچ فرما رہے ہیں ۔ اس لیے کہ اس دوران کبھی انہیں آبدیدہ نہ دیکھا گیا۔
ایک بار پھر آج خود کو دیکھتے جائیے اور شرماتے جائیے ۔