"FBC" (space) message & send to 7575

حضرت آدمؑ کی زمین پہ آمد

پچھلے ہفتے میں نے آدم ؑ کی زمین پہ آمد پر لکھا۔ انسانی باقیات (Fossils) کا علم بتاتا ہے کہ ایک نہیں، کئی اقسام کے انسان اس زمین پہ آباد تھے۔ یورپ کا نی اینڈرتھل آدمی (Neanderthal Man) قریب تین سے چار لاکھ سال تک کامیاب زندگی گزارتا رہا۔ اس کا قد پانچ فٹ کے قریب لیکن سر ہم سے کچھ بڑا تھا۔ قریب تیس ہزار سال قبل، جب ہماری شکل کے جدید انسان یورپ اور ایشیا سمیت دنیا بھر میں پھیل رہے تھے، نی اینڈرتھل ختم ہوتے چلے گئے۔ اس کا ایک ممکنہ سبب موجودہ انسان کی ذہنی برتری بھی ہو سکتی ہے، جس کی بنا پر نی اینڈرتھل پہ ہم حاوی ہو گئے۔ اس ناپید انسان کی باقیات اور ڈی این اے سمیت، سب شواہد مکمل صحت کے ساتھ موجود ہیں۔ 
نی اینڈرتھل اور دوسری انسانی نسلوں کو ہم مغرب کی سازش قرار دے ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف مغرب کا عمومی روّیہ مذہب کا انکار ہے۔ اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰؑ کی تضحیک وہ ہالی ووڈ کی ان گنت فلموں میں کر چکے ہیں۔ نوحؑ کے سیلاب پہ مغرب قطعاً یقین نہیں کرتا۔ مشرق کے برعکس صوفی (Saint) کو وہاں ایک بھک منگا اور نیچ انسان سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف مغربی سائنسی برادری تحقیق کے معاملے میں کڑے ترین اصولوں کی پیروی کرتی اور اس ضمن میں دھوکے بازی پر ایک دوسرے کو بھی ادھیڑ ڈالتی ہے۔ مذہب اس کا مسئلہ ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کھلے دل سے اگر ہم غور کریں تو جدید تحقیقات اور قرآن میں درج سائنسی حقائق میں ذرّہ برابر فرق بھی موجود نہیں۔ 
جہاں تک ستاروں پہ کمند ڈالنے والے جدید انسان ہومو سیپین سیپین (Homo Sapien Sapien) کا تعلق ہے، اس کی تاریخ قریب دو لاکھ سال پہ مشتمل ہے۔ حیرت انگیز طور پر پہلے ڈیڑھ لاکھ سال میں دوسرے جانوروں سے تو وہ برتر نظر آتا ہے‘ لیکن ایجادات کرنے والی موجودہ انسانی ذہانت کا ایک ذرّہ بھی اس میں نظر نہیں آتا۔ پچاس ہزار سال پہلے اچانک کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو انسانی باقیات کے ساتھ اعلیٰ قسم کے ہتھیار، مذہبی اشیا اور زیورات ملنے لگیں گے۔ یہاں حضرت علیؓ سے منسوب بیان پہ ایک نظر ڈالیے۔ غالباً محی الدین ابنِ عربی نے اسے رقم کیا ہے۔ فرمایا: آدم سے پہلے بھی ایک آدم تھا، اس سے پہلے ایک اور آدم اور اس سے قبل ستّر ہزار آدم۔ 
آئیے اب میں آپ کو وہ آیات بتائوں، جن کی بنا پر پروفیسر احمد رفیق اختر نے زمین پہ آدمؑ کی آمد سے قبل غیر ذہین اور غیر جواب دہ انسانی وجود کا نتیجہ اخذ کیا۔ ھل اتیٰ علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا۔ سورہ دھر، آیت:1، پارہ 29۔ یقینا زمانے میں انسان پر ایک وقت ایسا بھی گزرا، کہ جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ آدمؑ تو ایک نہایت ہی قابلِ ذکر آدمی تھے۔ فرشتوںکو علم کے میدان میں انہوں نے شکستِ فاش سے دوچار کر ڈالا تھا۔ تو یہ ناقابلِ ذکر انسان کون تھا؟ نی این ڈرتھل بھی قابلِ ذکر اور کامیاب انسان تھا۔
جہاں قرآن میں یہ لکھا ہے کہ آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا گیا، وہیں یہ بھی درج ہے (مفہوم) اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔ ادھر سائنس یہ کہتی ہے کہ زندگی کی بنیاد بننے والے آرگینک مالیکیولز کو ایک دوسرے سے جڑنے اور مزید پیچیدہ ہو کر خلیات تشکیل دینے کے لیے پانی یا اس جیسا کوئی مائع درکار ہوتا ہے۔ 1952ء کے مشہورِ عالم Miller-Urey تجربے میں، جب لیبارٹری میں یہ شرائط پوری کی گئیں تو زندہ خلیات کی بنیاد بننے والے امائینو ایسڈ کامیابی سے وجود میں آئے تھے۔ 
صاحبانِ علم و دانش سے میرا سوال یہ ہے کہ آدمؑ تو آسمان سے زمین پر تشریف لائے۔ زمین پہ موجود دوسرے جانور کہاں سے؟ انہیں تو جنت سے نہیں اتارا گیا۔ کیا وہ اسی کرّہء ارض پہ پیچیدہ خلیات کے باہمی ربط کا نتیجہ نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ دماغ کے علاوہ، جسمانی طور پر انسان اور جانوروں میں کوئی فرق بھی تو موجود نہیں۔ کیا ان کے معدے، دل، گردے، جگر اور دیگر اعضا انہی اصولوں پہ کام نہیں کرتے ، جیسا کہ انسان میں؟ 
اس وقت میرے ذہن میں صرف یہی آیات موجود ہیں۔ کئی اور ہیں، جنہیں اس وقت جلدی میں ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ زمین، زندگی اور کائنات کو بڑی گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کائنات پہ غور کرنے والوں کی ستائش کرتا ہے (مفہوم) اور وہ آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش پہ غور کرتے ہیں۔ اب مجھے یہ بتائیے کہ زمین و آسمان کی پیدائش پہ غور کرنے کے لیے کیا فلکیات (Cosmology) کا بنیادی علم (Basics) سیکھنے کی ضرورت نہیں؟ کیا ارضیات (Earth Sciences) سے آشنائی کے بغیر زمین پہ غور کرنا ممکن ہے؟ کیا زمین پہ انسانی تاریخ پہ فتویٰ جاری کرنے سے پہلے باقیات (Fossils) کے علم کا کم از کم مطالعہ ضروری نہیں؟
قرآن میں لکھا ہے: زمین اور آسمان اور جوان کے درمیان موجود ہے، اس میں نشانیاں ہیں (مفہوم)۔ زمین اور آسمان اور ان کے درمیان دیکھیے تو آپ کو اوزون ملے گی، زمین کا مقناطیسی میدان اور کروڑوں سورجوں کے برابر وجود رکھنے والے بلیک ہول ملیں گے۔ ان پہ غور کرنا کیا مغرب ہی کی ذمہ داری ہے یا خدا کے آخری پیغمبرؐ پہ ایمان رکھنے والوں کو بھی دماغ پہ زور ڈالنے کی ضرورت ہے؟ کیا عقل کی بات کرنا جرم ہے؟ کیا حقیقت رائج اور مزعومہ تصورات سے مختلف نہیں ہو سکتی؟ قرآن میں سو فیصد درست لکھا ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے لیکن ہماری سمجھ میں تو غلطی ممکن ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ گزشتہ کالم کے جواب میں ایک صاحب نے مجھے گالیوں بھرا پیغام ارسال کیا۔ یہ روّیہ درست نہیں۔ ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ گہرائی میں قرآن پہ غور کرنے کی ضرورت ہے اور جدید سائنسی تحقیقات پہ نظر ڈالے بغیر یہ ممکن نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں