"FBC" (space) message & send to 7575

تبدیلی

جہاں تک مجھے یاد پڑتاہے ، زرداری صاحب کی حکومت 2008ء میں قائم ہوئی تھی ۔ اس اعتبار سے 7سال بعد ذوالفقار مرزا کا ضمیر جاگ اٹھا ہے ۔ اب دیر آید درست آید کہا جائے یا یہ کہ
کب کھلا تجھ پہ یہ راز؟
الیکشن سے پہلے کہ بعد؟
یہی مرزا صاحب تھے ، پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جنہوں نے انکشاف فرمایا تھا: بے نظیر بھٹوکے قتل پر ہم پاکستان توڑنا چاہتے تھے ، آصف علی زرداری نے ''پاکستان کھپے‘‘ کانعرہ لگا کر ہمیں روک دیا۔ پھر قرآن ہاتھ میں اٹھا ئے، انہوںنے اپنی وہ تاریخ ساز پریس کانفرنس کی، کراچی کے بارے میں جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا روّیہ بدل کے رکھ دیا۔ مرکز میں زرداری صاحب کی وہ حکومت ختم ہو چکی ہے ، قریب دو فیصد شرح ترقی کے ساتھ جسے پاکستانی تاریخ کا بدترین دور قرار دیا جا سکتا ہے ۔ مرزاصاحب کی اہلیہ محترمہ اس دور میں قومی اسمبلی کی سپیکر تھیں۔ مبلغ پچاس کروڑ روپے کا قرض انہوں نے معاف کرایا۔
یہ وہ دور تھا، جس میں ملکی قرضے 6ہزار سے بڑھ کر 14ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ۔بدترین دہشت گردی ہوتی رہی مگر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کی تعمیر میں پیپلز پارٹی ناکام رہی ۔ زرداری صاحب نے اقتدار نون لیگ کو سونپا تو توانائی بحران اس سے کہیں زیادہ سنگین تھا، جتنا کہ پرویز مشرف ان کے لیے چھوڑ گئے تھے ۔ اس تمام عرصے میں یہ صاحب ڈفلی بجاتے اور زرداری صاحب کے دشمنوں پہ حملہ آور ہوتے رہے ۔ ان پہ وہ جان نثار کرنے کو تیار تھے ۔
زرداری صاحب کے پانچ سالہ اقتدار کے نتیجے میں سول ادارے جب ناکام ہوئے تو ریاست میں عسکری اثر و رسوخ بڑھنا ایک فطری عمل تھا۔ پیپلز پارٹی کے سارے شہسوار اس دوران چین کی بنسری بجاتے رہے۔ اب رضا ربّانی آنسو بہاتے اورذوالفقار مرزا دھاڑ رہے ہیں ۔ مخدوم امین فہیم جنرل مشرف سے ملاقات کرتے تو زرداری صاحب ''بلّے‘‘ کو سندھ حکومت گرانے کی سازش کا مرتکب قرار دیتے۔ ایک نہیں ، کئی گروپ اور طاقت کے کئی مراکز پارٹی میں ابھر آئے ہیں ۔ پنجاب ، سرحد اور بلوچستان کے بعد اب کشمیر میں بھی وہ اپنے اختتام کے قریب ہیں۔ سوا سال بعد کشمیر کے انتخابات میں صورتِ حال پوری طرح واضح ہو جائے گی ۔
مرزا صاحب کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور شہید رانی کے بعد اصل لیڈر اب بلاول بھٹو ہیں ، جنہیں سندھ حکومت کی کرپشن اور نا اہلی نے معاملات سے لا تعلقی پر مجبور کر دیا ہے ۔بادشاہ سلامت ناگہانی موت مرے تو ظہیر الدین بابر کی عمر 12برس تھی ۔ سرپرست رشتے داروں نے بتدریج ریاست ہتھیا لی ۔بابر میدان میں اترا اور سینکڑوں برس تک برصغیر پہ حکمران رہنے والی عظیم الشان مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر سے لیڈری کی خصوصیات نسل در نسل منتقل ہو ئی ہوتیں تو 2008ء میں پیپلز پارٹی کا چیئرمین بننے اور پانچ سالہ دورِ اقتدار کے دوران حکومت میں اپنا ایک بڑا کردار پیدا کرنے سے بلاول زرداری کو کوئی بھی روک نہ سکتا تھا۔ لاکھ کفِ افسوس ملیے ، لیڈر شپ کا ہنر ان کے پاس نہیں ۔ذوالفقار مرز اکے الزامات میں صداقت ضرورہے ۔ جس دور میں جہانگیر ترین جیسی مالداراور سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والی شخصیت کی شوگر مل چھیننے کی کوشش کی گئی ہو، دوسروں کے ساتھ کیا ہوا ہوگا؟
بدلے ہوئے حالات میں مارشل لا کا توکوئی خطرہ نہیں ۔ دوسری طرف یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کے ناکام دورِ حکومت ، نون لیگ او رتحریکِ انصاف کی کشمکش، موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی نا اہلی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی کردار نے فیصلہ سازی میں عسکری قیادت کا کردار حد سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ افغانستان ، بھارت اور امریکہ پالیسی اور کشمیر پہ موقف، دوسرے الفاظ میں خارجہ پالیسی تقریباً مکمل طور پر اسی کے ہاتھ میں محسوس ہوتی ہے۔ تحریکِ انصا ف کو کمزور اور حالات کو موافق دیکھتے ہوئے جوڈیشل کمیشن نہ بنانے اورتنازعات کا قابلِ قبول سیاسی حل نہ نکالتے ہوئے وزیرِ اعظم نواز شریف ایک بڑی مہلک غلطی کے مرتکب ہیں ۔
تحریکِ انصاف اور نون لیگ کا مستقبل‘ مرکز اور صوبے میں ان کی کاکردگی پہ منحصر ہے ۔ پنجاب میں اپنے پچھلے دور ہائے اقتدار میں نون لیگ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکی ۔آئین کے تحت صوبوں کو پچاس میگاواٹ بجلی کے منصوبے لگانے کا اختیار حاصل تھا۔ نندی پور منصوبے کی تاخیر میں وہ پیپلز پارٹی کو موردِ الزام ٹھہراتی رہی؛ حالانکہ اسی حکومت کے ہاتھ سے تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کی آئینی تبدیلی اس نے کرالی تھی ۔ بہرحال، اب کی بار مرکزی حکومت پانچ برس مکمل ہونے تک توانائی بحران حل اور بڑی معاشی بہتری نہ لا سکی تو مستقبل میں نون لیگ کی حکومت خواب و خیال کی بات ہوگی ۔
ادھر پختون خوا میں دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ آئی جی ناصر درّانی صاف ستھرے آدمی ہیں۔ کپتان کی مدد سے صوبے کی پولیس میں انہوں نے بد عنوانی اور سیاسی مداخلت کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا ہے ۔ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق ہے ، پولیس اوردوسرے سول ادارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔
کراچی میں حالات کی بہتری میں بڑا ہاتھ نیم فوجی ادارے رینجرز کا ہے ۔ شمالی وزیرستان سمیت، قبائلی علاقے میں فوج برسرِ پیکار ہے ۔ خارجہ امور اس کے ہاتھ میں ہیں۔ مرکزاور پنجاب میں نون لیگ کی کارکردگی واجبی ہے ۔ میٹرو منصوبے وسائل کی بربادی اور ترجیحات کے غلط تعین کی سب سے بڑی مثال ہیں ۔ریاستی آمدنی اور اخراجات میں قریب ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا فرق اپنی جگہ موجود ۔ ٹیکس وصولی کے نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں ۔ معاشی طور پر جو ذرا سی بہتری نظر آتی ہے ، اس کا بڑا حصہ تیل کی عالمی قیمت میں پچاس فیصد کمی کا مرہونِ منّت ہے ۔
اس وقت جب سیاسی قوّتیں کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہیں ، ایک نئی سیاسی جماعت کا ظہور ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے ۔ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور ترک رجب طیب اردوان جب قومی افق پہ ابھرے تھے توتاریخ ساز کامیابیوں کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہ تھا۔ دوسروں کی وہ جانیں ، مجھے تو اگرنئی سیاسی جماعت سمجھ میں آئی تو ایک ہزار افراد کو بتدریج میں اس میں شامل کرائوں گااور یہ لکھوں گا: تبدیلی ہی سب سے بڑی کائناتی سچائی ہے ۔
جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہوگا ، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں