گواہ موجود تھے اور ثبوت مکمل ۔پھانسی کا پھند ا فقیر محمد سے کچھ زیادہ دور نہ تھا۔ذاتی طور پر مجھے ایک رحم دل جج سمجھا جاتاہے لیکن اس آدمی کے لیے میرے دل میں نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ یہ کہتا تھا کہ روزانہ خدا اس کے دسترخوان پہ آبیٹھتا اور شریک طعام ہوتا ہے۔یہ کھا نا بہت ہی معمولی تھااور کیوں نہ ہوتا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک مزدور تھا، پتھر توڑنے والا مزدور۔
آخری گواہی سمیہ بی بی کی تھی ۔ فقیر محمد کی مطلقہ سمیہ ۔ حلف اٹھا کر اس نے یہ کہا ''تنگ دستی کے باوجود ہم خوشگوار زندگی جی رہے تھے ۔ پھر اس نے اپنا کھانا مجھ سے جدا کیا۔راتوں میں یہ بے چین رہتا ، کروٹیں بدلتا اور پھر دوسرے کمرے میں جا کے فرش پہ سو رہتا۔ پھراس پراسرار ماجرے کی ابتدا ہوئی ۔ آہستہ آہستہ یہ نکھرنے لگا۔ اس کا کمرہ خوشبوئوں سے بھرا ہوتا۔ مجھے بے وفائی کی بو آنے لگی۔ ہر ممکن کھوج لگانے کے باوجود میں ناکام رہی ۔ سختی سے میں نے سوال کیا اور تب پہلی بار اس نے یہ بات کہی۔ اس نے کہا سمیہ ، رات کو خدا میرا مہمان ہوتاہے ۔ وہ میرے ساتھ مل بیٹھ کر کھاتا ہے ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ خود اس کے پاس صرف ایک سوکھی روٹی ہوا کرتی ، جسے پانی میں بھگو کر یہ کھایا کرتا۔ اس کا کہنا تھا کہ آدھی وہ پروردگارِ عالم کو دے دیتا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس کے طرزِ عمل سے خوفزدہ ہو گئی ؛لہٰذا میں نے علیحدگی اختیار کی ۔‘‘
شور اٹھا ۔ کمرہ ء عدالت میں موجود مذہبی رہنمائوں نے اس پر لعن طعن شروع کی۔ ملّا حکم دین بولنے لگا ''ملزم ایسی جسارت کا مرتکب ہوا ہے ، اس سے قبل جملہ انسانیت میں کبھی کسی کو جس کی جرأت نہ ہو سکی ۔یہ کہتا ہے کہ خدا شریک طعام ہوتا ہے ۔ گمراہی سے لوگوں کو محفوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ فقیر محمد کو سوکھی ہوئی روٹی دی جائے اور خدائے واحد کو وہ پیش کر کے دکھائے ۔ ناکام ہو تو قتل کر دیا جائے ‘‘۔
فقیر محمد اب تک اس ساری کارروائی سے لا تعلق نظر آتاتھا لیکن اب اس نے یہ کہا ''کیوں نہیں ، روٹی لائو ‘‘صاف صاف اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے اس عظیم بہتان پر وہ قائم ہے اور بقائمی ہوش و حواس مخلوق کو گمراہی کی طرف لے جانے کا خواہشمند ۔اب میرے دل سے رحم کے رہے سہے جذبات بھی دھل گئے اور ان کی جگہ نفرت نے لے لی ۔ بڑی احتیاط سے فقیر محمد نے روٹی تقسیم کی اور دیر تک اس کے دونوں ٹکڑوں کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ فرش پہ جا بیٹھا اور بڑی اشتہا کے ساتھ ایک نوالہ منہ میں ڈالا۔
اس کے بعد کیا ہوا، یہ کسی کو درست طورپر یاد نہیں ۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ روشنی کا ایک سیلاب آیا تھا اور اس کے ساتھ خوشبو تھی ۔ جب دوبارہ ہم ہوش میں آئے تو ملزم اپنا آخری لقمہ کھا رہا تھا۔ روٹی کا دوسرا ٹکڑا غائب تھا۔
اب غیظ و غضب کی جگہ بد حواسی نے لے لی ۔''فقیر محمد یہ کیسے ہوا ؟ ‘‘
ملزم بولنے لگا ''پہلی بار جب خدا کو مہمان بنانے کی آرزو میرے دل میں جاگی تو تنگ دستی میرے آڑے آگئی ۔ عسرت اور ناداری مجھے رلانے لگیں ۔ پھر میں نے اپنا سب سے قیمتی سرمایہ اس کی نذر کیا۔میں نے اس روٹی میں سے آدھی اس کی نذر کی ، جس پر میری زندگی کا انحصار تھا۔ پہلے دن میں نے دیکھا کہ اسے چیونٹیاں کھا گئیں ۔ میں نے کہا کہ مالک میں نے یہ تیری نذر کی نہ کہ تیری مخلوق کی۔ اس کے بعد دوبارہ کبھی کوئی چیونٹی اس کے قریب نہ آئی لیکن وہ خود بھی نہ آیا۔پھر مجھے خواب آنے لگے ، حسین خواب ! خوبصورت مخلوقات میرے پاس آتیں او رمجھے منع کرتیں ۔ وہ کہتیں کہ فقیر محمد خدا ان ضرورتوں سے بے نیاز ہے ‘‘۔ وہ ہنسا ''میں نے کہا کہ ضرورتوں سے وہ بے نیاز ہے ، اپنی مخلوق سے نہیں ۔ ‘‘
''اس کے بعد‘‘
اس نے کہا ''مجھے مال و دولت کی پیشکش کی گئی۔ بوسیدہ کمرے میں ، مجھے سونے چاندی کے ڈھیر نظر آتے لیکن ...‘‘اس نے فخر سے کہا ''آنکھ اٹھاکر بھی میں نے اس کی طرف نہ دیکھا ‘‘
سب پتھرائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے رہے ۔ اس نے کہا ''میں نے کہا ، پروردگارِ عالم ، میں روٹی نہیں ، اپنی بھوک تیری نذر کر رہا ہوں ۔ وہ بھوک جو دوسری آدھی روٹی کے لیے ساری رات مجھے بے قرار کرتی ہے ۔ دس سال گزر گئے لیکن وہ نہ آیا۔ میرا دل خون ہونے لگا‘‘۔
سوال کی کسی کو جرأت نہ تھی ۔ وہ خود ہی خاموش ہوتا اور خود ہی بولنے لگتا تھا۔ اس نے یہ کہا ''میں سوچتا رہا اور پھر اس گریز کی وجہ میری سمجھ میں آئی ۔ میں جب روٹی بانٹتا تو لا شعوری طور پر بھوک مجھے مجبور کر تی کہ قدرے بڑ اٹکڑا اپنے لیے رکھ لیتا۔ اس روز میں بہت ہنسا اور بڑی بے قراری سے را ت کا انتظار کیا۔ تب بڑا ٹکڑا میں نے اس کی نذر کیا۔ تب وہ میرے دسترخوان پہ آبیٹھا ... اور آپ سے کیا چھپانا، اسے کوئی حاجت نہ تھی ۔ میری بے قراری اور شوق دیکھ کر ، وہ میر ادل رکھنے آتا تھا‘‘۔
اس اثنا میں ، میں نے دیکھا کہ ملّا حکم دین اور اس کی جماعت جا چکی تھی ۔ عام لوگ عقیدت بھری نظروں سے فقیر محمد کو دیکھ رہے تھے ۔ جیوری میں اب یہ جرأت نہ تھی کہ اسے سزا دیتی ؛ لہٰذا یہ لکھا گیا ''ملزم فقیر محمد ولد غلام محمد ایک ذہنی مغالطے کا شکار ہے ۔ اوّل تو خدا اس کے پیش کردہ کھانے کا محتاج نہیں اور پھر اس نے انتخاب کرنا ہو تو کیا وہ اس کی سوکھی ہوئی آدھی روٹی ہی کا انتخاب کرے گا۔ بہرحال اس کی ذہنی حالت کے پیشِ نظر ، عدالت اسے معاف کرتی ہے ‘‘۔
جہاں تک عدالت میں پیش آنے والے ماورائے عقل واقعے کا تعلق تھا، اسے کارروائی سے حذف کر دیا گیاتھا۔
کئی برس بیت چکے ۔ ہر رات میں اپنے کمرے میں ایک اعلیٰ دسترخوان بچھا تا ہوں لیکن صبح اس پر چیونٹیاں ہوتی ہیں ۔ اور آپ سے کیا شرمانا، میں بھوکا نہیں رہ سکتا۔