پروردگارِ عالم یہ پوچھ رہا تھا: اے میرے بندے ، میرے لیے تو نے کیا کیا؟ آسمان پہ چمکتے ایک ہزارارب سورجوں تلے ، میں حیرت زدہ کھڑا تھا۔
میں جمال مصطفی ، ایک مثالی زندگی گزرنے والا کامیاب آدمی۔ بظاہر صحت مند اور خوش و خرم لیکن اندر ہی اندر عمر بھر کا غم مجھے چاٹ رہا تھا۔ میرے دل کو وہ بوسیدہ کرتا چلا گیا۔ پھر آخری رات آئی اور میں مر گیا۔ اب وہ پوچھ رہا ہے : اے میرے بندے ، میرے لیے تو نے کیا کیا؟
مجھے متضاد سوچوں نے گھیر رکھا تھا۔ یہ بات بھی میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ مجھ سے وہ چاہتا کیا تھا۔ مذہبی نہیں تو میں لادین بھی نہیں تھا۔ ایک آدھ نماز تو روزانہ ہی پڑھتا تھا، بالخصوص آخری برسوں میں ۔ میری موت بڑھاپے نہیں، ادھیڑ عمری میں ہوئی تھی۔ پھر میں سوچنے لگا کہ سچ بولوں یا حیلہ کروں ۔ تب اس نے یہ کہا ''میں سات کائناتوں کا رب ہوں ۔ تیرے جسم کے وہ عناصر بھی میں نے ہی تخلیق کیے ہیں ، جن کے بل پر تو سوچتا ہے ۔ آج تیری مثال اس بچّے کی سی ہے ، جو جنم لینے کے فوراًبعد اپنی ماں کے سامنے عریاں ہو ۔آج مکر ممکن نہیں‘‘۔
میں نے یہ کہا ''اے میرے رب ،تو بلند و بالا ، میں ادنیٰ اور حقیرلیکن سچ تو یہ ہے کہ تو نے بھی مجھے کچھ نہ دیا۔ میں پیدا ہوا تو اس حال میں کہ میری ماں مر چکی تھی ۔ کم سنی میں ، میں نے باپ کا ہاتھ
بٹایا۔ صبح میں سکول جاتا ،دوپہر مشقت کرتا۔ رات کو سبق دہراتا۔ مجھے سکول سے اٹھا لیا جاتا لیکن میں نے وظیفہ حاصل کیا۔ میں نے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا۔ میں چارٹرڈ اکائونٹنٹ بنا۔ باپ کو حج کرایا۔پھر میری شادی ہوئی ۔ میں نے چاہا کہ میری اولاد پہ کسی محرومی کا سایہ تک نہ پڑے۔ تو میں اور محنت کرنے لگا۔ میں نے جائیداد بنائی اور کاروبار کیا۔ یہاں آکر تو نے مجھے اٹھا لیا اور اب حساب مانگتاہے‘‘۔ یہاں مجھے اولاد کا خیال آیا۔ فاروق تو پھرسمجھدار اور محنتی ہے۔ چھوٹا ناصر بھولا بھالا اور میرا لاڈلا؟ وہ تو ابھی کالج جاتا ہے ۔ ہائے میرا ناصر ! میں چیخ چیخ کر رونے لگا۔
''ناصر دونوں زندگیوں میںکامیاب رہے گا‘‘ خدا نے کہا ''وہی سب کچھ سنبھالے گا۔سن اب میں نے تیرے لیے کیا کیا۔ تیرا باپ تجھے پڑھانے کے قابل نہیں تھا۔ جس شخص کے پاس وہ نوکر تھا، اس کا دل سخت تھا۔میں نے اس میں رحم ڈالا۔ تو اس نے تیری پڑھائی کا ذمہ لیا۔ تیرا ہم جماعت کلیم تجھ سے دو گنا محنتی تھا ۔ وظیفہ وہ لے جاتا لیکن تیرے دماغی خلیات کو میں نے بہتر انداز میں جوڑنا شروع کیا کہ تیری کامیابی کی راہ ہموار ہو ۔خلیات کے یہی روابط تھے، جن میں سے کچھ تجھے ہر وقت
محنت پر اکساتے ۔انہی میں سے کچھ نے ذہانت میں تجھے دوسروں سے ممتاز کر دیا ۔ رو ز میں تیرے دل کو دھڑکاتااور خون کی صورت جسم و دماغ کے ہر خلیے تک غذا پہنچاتا۔ میں تیرے کان کے پردے پر جا بیٹھتا اور اسے حکم دیتا کہ تیراجسمانی توازن برقرار رکھے ۔ میں نے ہی تیرے دماغ کو حکم دیا کہ جسم کے ہر عضو تک کرنٹ پہنچاتا رہے تاکہ تو فالج زدہ نہ ہو جائے ۔ روز میں تیرے پھیپھڑے سکیڑتا اور معدے کو حرکت دیتا‘‘۔
''یااللہ، میں نے بہت محنت کی‘‘ میں نے گڑگڑا کر کہا ۔
''میں نے تجھے مشقّت کے قابل بنایا ، توفیق دی‘‘۔ اس نے کہا۔ ''اور سن ، میں تجھے تیری ضرورت سے زیادہ دیتا تھا۔ جو کھانا تو پھینک دیتا، وہ ایک بوڑھا بیمار کتّا کھاتا تھا۔ میں نے اسے بھی پالا۔ جب وہ مر گیا تو چونٹیوں کی ایک پوری بستی تادیر اسے کھاتی رہی ۔ میں نے انہیں بھی پالا۔ جو چونٹیاں مرجاتیں ، انہیں خوردبینی جاندار کھایا کرتے ، تو جنہیں دیکھنے سے قاصر تھا۔ یہ تیری غلط فہمی ہے کہ اپنی عقل کے بل پر تو نے کما کر کھایا۔ میں نے تجھے پالا اور اسی طرح پالا ، جس طرح کائنات کے تمام جانداروں کو میں پالتا ہوں ۔ اے میرے بندے ، اپنے لیے تو نے سب کچھ کیا۔ میرے لیے تو نے کیا کیا ؟‘‘
''یارب تو بے نیازہے ۔ میں حالات کا مارا ایک کمزور اور بے بس آدمی تجھے کیا دے سکتا تھا‘‘ میں نے کہا۔
''میں نے تجھے پالا پوسا‘‘ اس نے کہا ''اوردوسرے حیوانوں کے برعکس تجھے شعور دیا۔ تو نے صاف ستھرا کھانا کھایا۔ مضبوط گھرمیں تو موسموں کی شدّت سے محروم رہا۔ بے شک میں بے نیاز ہوںلیکن ان تمام مہربانیوں کے بدلے کچھ تیرا بھی فرض تھا کہ نہیں؟ ‘‘
میری سمجھ سے یہ بات بالاتر تھی کہ میں اسے کیا دے سکتا تھا۔ اس نے یہ کہا ''محبت! میرے بندے ، مجھے تیرے دل کا سوز و گداز چاہیے تھا ۔ اور اگر تو محبت سے میری طلب کرتا تو اپنا ہی بھلا کرتا۔ میں تو ہوں بے نیا ز لیکن میری محبت اور میری طلب دنیا کے امتحان میں کامیابی کا رستہ ہے ۔ افسوس کہ سنجیدگی سے تو نے میرے وجود پر کبھی سوچاہی نہیں ۔ دنیا کی سب سے بڑی سچائی سے تو بے پروا رہا‘‘۔
یہاں اب میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ گہرائی میں زندگی کے تقاضوں پر میں نے کبھی غور نہ کیا۔ اندر ہی اندر ، کہیں لاشعور میں اس بات کا احساس مجھے ضرور تھا ۔ یہی احساسِ جرم تھا، جو میرے دل کو گھن کی طرح چاٹ گیا اور بڑھاپے سے قبل ہی میں مر گیا۔ یہاں میں نے سوچا کہ کاش مجھے ایک موقع اور دیا جائے تو میں بہتر زندگی گزاروں۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہ رہا۔
یہی وہ لمحہ تھا، جب بستر پر پڑے جمال مصطفی کے ساکت جسم کو ایک زوردار جھٹکا لگا۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی اور دل غیر معمولی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔ اس کی حسین و جمیل بیوی گھبرا گئی اور اس سے سوال کرنے لگی ۔ رفتہ رفتہ اس کا سانس بحال ہوا۔ آہستہ آہستہ سب معمول پہ آگیا۔ اسے یاد آیا کہ صبح اسے کچھ جائیداد خریدنی ہے ۔اس کے بعد رات گئے تک دفتری اور کاروباری امور ۔ اپنی بیوی سے اس نے کہا کہ نیند میں وہ ڈر گیا تھا۔ اسے یاد آیا کہ چند ماہ قبل بھی یہی ماجرا پیش آیا تھا۔وہ لیٹ گیا اور پھر سے نیند میں جانے لگا ۔اس عالم میں اذان کی آواز بھی اس نے نظر انداز کر دی ۔
ادھرآسمان پہ خدا فرشتوں سے یہ کہہ رہا تھا ''کیا میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ جمال ہر بار یہی کرے گا؟‘‘