"FBC" (space) message & send to 7575

ہر صاحبِ علم کے اوپر ایک اورجاننے والا ہے

قرآن میں لکھا ہے : ہر صاحبِ علم کے اوپر ایک اور جاننے والا ہے ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر جب اظہارِ خیال کرتے ہیں تو حیرت ہونے لگتی ہے کہ انسانی ذہن کس قدر گہرائی میں سوچ سکتاہے ۔دو روز قبل گل پیڑہ میں شاندار دعوت کے بعد سوال جواب کی نشست تھی ،ہمیشہ کی طرح ، جس نے شاگردوں کو ذہنی وسعت عطا کی ۔ آپ بھی لطف اندوز ہوں ۔
بخل کے بارے میں سوال کیا گیا ، ایک عام مبلّغ اس سے زیادہ کیا کہے گا : بخل بری چیز ہے ۔ اس سے بچنا چاہیے وغیرہ وغیرہ ۔ پروفیسر صاحب کا جواب یہ تھا: اللہ کہتاہے ''واحضرت الانفس الشح ‘‘(النساء :128)تمام جانداروں کو ہم نے بخلِ جان (اپنی جان کی حفاظت )پر جمع کیا ۔سب سے بڑا اور بنیادی بخل جو تمام جانداروں میں پایا جاتاہے ، وہ بقا کا جذبہ ہے ۔یہ بھی کہ خدا کی محبت میں جان دینے والے ہی وہ واحد لوگ ہیں ، جنہیں موت سے آزاد کر دیا گیا ہے ۔ پھر وہ آپ کو بتائیں گے کہ روپے پیسے اور مال اسباب میں کس قدر بخل جائز بلکہ بقا کے لیے ضروری ہے ۔ حضرت رابعہ بصریؒ کا واقعہ بھی ، جب اپنے پاس موجود واحد روٹی ، جس سے انہوں نے روزہ افطار کرنا تھا، مانگنے والے کو دے دی ۔ کچھ دیر بعد جب کسی نے کھانا ان کی نذر کیا تو اس کی مقدار دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں ۔ وہ بھی بانٹ دیا۔ اس کے بعد دوبارہ کسی نے طعام کا سامان بھجوایا تواسے قبول کیا لیکن ظاہر ہے کہ یہ تو غیر معمولی توکل کے ، غیر معمولی طور پر خدا کی قربت میں رہنے والوں کے معاملات ہیں ۔ ہم عام لوگ اس کے متحمل کہاں ۔
یہاں پروفیسر صاحب یہ بتائیں گے کہ بخل یادداشت پہ کس طرح برا اثر ڈالتی ہے ۔ یہ بھی کہ '' واللہ شکورحلیم ‘‘کی تسبیح سے آدمی آہستہ آہستہ اس سے چھٹکار ا پا سکتاہے ۔ یہاں مسکراتے ہوئے وہ یہ بھی کہیں گے کہ مشکل ہی ہے کہ بخیل آدمی اسے پڑھنے کا مشکل فیصلہ کرسکے ۔ اپنی خامیوں پر غور اور ان سے چھٹکارے کے مقدّس فرض پر انسانوں کی بہت قلیل تعداد ہی عمل پیرا ہوتی ہے ۔
کسی نے خوابوں سے متعلق سوال کیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ خوابوں کی کئی جہتیں ہوتی ہیں اور تعبیر پیچیدہ ۔ جدید تحقیق کے مطابق خواب انسانی دماغ کے درمیان والے حصے لمبک سسٹم "Limbic System"سے پھوٹتے ہیں ، جو جذبات کی آماجگا ہ ہے ۔ جو چیز انسانی لاشعور کو زیادہ متاثر کرتی ہے ، وہ بار بار اسے نظر آسکتی ہے ۔مثلاً جس سکول سے میں نے میٹرک کیا تھااور جس دوران میں ہاسٹل میں مقیم رہا ،میں بار بار خود کو وہاں دیکھتا ہوں ۔ اس قسم کے خواب کی تعبیر کوئی نہیں ہو تی ۔ اس کا تعلق تونفسیات سے ہے ۔ پھرعلامات ہوتی ہیں ، جن کی باقاعدہ تعبیر ہوتی ہے ۔ مثلاً آپ علم میں اضافے کی دعائیں پڑھیں تو عین ممکن ہے کہ خواب میں خود کو ہوا میں اڑتا دیکھیں ۔ یہ ذہنی اور روحانی بہتری کا اشارہ ہے ۔ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعاعربی میں پڑھتے رہیے ''اے رب میرے لیے میرا سینہ کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان سے گرہ کھول دے تا کہ وہ (فرعون) میری بات کو سمجھ سکے ‘‘۔ ا س کے بعد عین ممکن ہے کہ آپ خود کو زوردار سیٹی بجاتا دیکھیں ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ کے اعتماد اور بات چیت کرنے کی صلاحیت (Communication Skill)میں بہتری آئے گی ۔ اگر آپ اپنی والدہ کو خود کے لیے لباس سیتا دیکھیں تو سیدھا سیدھا یہ شادی کا خواب ہے ۔ قرآن میں لکھا ہے:تمہاری عورتیں (بیویاں )تمہارا لباس اور تم ان کا لباس ۔(مفہوم)۔
پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ انسان جب سو جاتاہے تو ریڑھ کی ہڈی کے ایک مہرے میں کائنات کی باریک ترین چِپ (Chip)کی شکل میں موجود روح آسمان کی سیر کو روانہ ہوتی ہے ۔ یہ چپ اس قدر باریک ہے کہ آدم علیہ السلام کی ہتھیلی پر ان کی آل اولاد رکھ کر ان کو دکھا دی گئی تھی ۔ سائنسی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نیند کی تین چار حالتوں میں سے ، خواب اس وقت نظر آتاہے ، جب وہ گہری ترین نیند میں ہوتا ہے ۔ سائنسی تجربے اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ تب انسان کی جسمانی و ذہنی حالت میں کئی تبدیلیاں آتی ہیں ۔ اس کا جسم اس طرح ساکت ہو جاتاہے ، جیسے وہ مرچکا ہو ۔ دوسری طرف دماغی سرگرمیاں (Brain Activities)اپنے عروج پر ہوتی ہیں ۔ تیسری طرف پلکیں بند ہونے کے باوجود آنکھوں کی پتلیاں اس طرح تیزی سے حرکت کر رہی ہوتی ہیں ، جیسے وہ سرکس کا تماشہ دیکھ رہا ہو ۔
پروفیسر صاحب نے تبایا کہ خوابوں کی تعبیر میں دو چیزیں اہم ہیں ۔ نفسیات کا علم اور علامات کی تعبیر۔ پھر یہ کہ روح جب آسمان پر جاتی ہے تو راستے میں شیاطین کے مراکز ہیں ۔ انہیں یہ معلوم ہوتاہے کہ روح اوپر سے کوئی اچھی خبر لے کر لوٹ رہی ہے تو لازماً وہ خواب میں ملاوٹ کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی لیے ایسا ہوتاہے کہ خواب کا ایک حصہ نہایت عمدہ اور تسکین دہ جب کہ دوسرا بڑا خوفناک ہو سکتاہے ۔ خواب کی تعبیر بتانے والا اس ملاوٹ کو چھان لیتا ہے ۔ سب سے پہلے وہ اس نفسیاتی حصے کو الگ کر دیتاہے ، جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اورجو ماضی کی زندگی اورآدمی کی طرزِ فکر سے متعلق ہوتاہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جب یہ بتایا کہ گیارہ ستارے ، سورج اور چاند کو انہوں نے خود کو سجدہ کرتے دیکھا ہے تو یعقوبؑ نے جہاں یہ فرمایا کہ خدا تجھے چن لے گا ، وہیں یہ بھی کہ وہ تجھے باتوں (خوابوں ) کی تعبیر کا علم سکھائے گا۔(قرآن کے الفاظ میں ''و یعلمک من تاویل الاحادیث‘‘سورہ یوسف :6) یوں دیکھا جائے تو علمِ نجوم کی بنیاد ستاروں کی چال پر ہوتی ہے۔ جس ہستی کو اللہ یہ دکھائے کہ ستارے ، سورج اور چاند اسے سجدہ کر رہے ہیں ، وہ تعبیر کے علم میں کس قدر پختگی کا حامل ہو گا، اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتاہے ۔
یہاں میں مشتری ہوشیار باش کہتے ہوئے یہ ضرور کہوں گا کہ جڑی بوٹیوں کی طرح اگے ہوئے اور ادھر ادھر کے اندازے لگانے والے پیشہ ور نجومی حضرات سے محفوظ رہنا آپ کی اپنی ذمہ داری ہے ۔ یہ بھی کہ امام ابنِ سیرینؒ کی ''تعبیر الرویا‘‘ خوابوں کے بارے میں ایک نہایت ہی شاندار تصنیف ہے ۔حرفِ آخر یہ کہ اس مضمون کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مجھے تعبیر کا علم آتاہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں