"FBC" (space) message & send to 7575

دیر پا کامیابی

عمران فاروق قتل ، منی لانڈرنگ اوراشتعال انگیز تقاریر پر جب متحدہ کے قائدکے خلاف تحقیقات شروع ہوئیں ، اسی وقت یہ چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ جنرل پرویز مشرف ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنے والے ہیں ۔ ایک بارپھر وہی صورتِ حال ہے ۔ دوسری طرف پرویز مشرف نے بلدیاتی الیکشن میں بھرپور حصہ لینے اورخود کو تیسری سیاسی قوت قرا ر دینا شروع کر دیا ہے ۔ تیسری طرف ڈاکٹر عبدالقدیرخاں نے یہ بیان جاری کیا ہے:مہاجر ہونے کی وجہ سے مجھے قبول نہیں کیا گیا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے لیے حالات اس قدر ناسازگار کبھی نہ تھے۔ برطانیہ میں مقدمات اورکراچی میں رینجرز کے آپریشن نے آگے کنواں ، پیچھے کھائی کی صورتِ حال پیدا کر دی ہے ۔ بیرونِ ملک اور پاکستان میں شواہد کی کمی نہیں ۔ اسلحے کے ڈھیر اورعدالت سے سزا یافتہ مجرمان سمیت بدنامِ زمانہ قاتلوں کی نائن زیرو سے برآمدگی کی ناقابلِ تردید ویڈیوزٹی وی اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں ۔ پارٹی قیادت کی بیرونِ ملک روانگی پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے۔ نون لیگ کی حکومت نے اپنا سارا وزن رینجرز اور عسکری قیادت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے ۔آصف علی زرداری کے عہد میںدوسرے معاملات کی طرح کراچی امن کے لیے بھی درکار کم از کم سیاسی پشت پناہی عنقا تھی۔اس صورتِ حال میں کم از کم اس معاملے میں نو ن لیگ کی حکومت تحسین کی مستحق ہے ۔ متحدہ کی طرف سے نون لیگ کے خلاف سخت ردّعمل سامنے نہیں آیااور میرے لیے تو یہ بڑا حیرت انگیز ہے ۔
جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں قاف لیگ کی حکومت جہاں معاشی طور پر پاکستان کے لیے بہتری لے کر آئی ، وہیں ملک گیر تباہی کی بنیاد بھی رکھی گئی ۔ آٹھ برس تک بطورایک طاقتور حکمران، ملکی مسائل حل کرنے میں وہ ناکام رہے ۔ ڈیم نہیں بنے اور توانائی کے اس خوفناک بحران کی بنیادیں رکھ دی گئیں ، آنے والے برسوں میں جس نے لاکھوں محنت کشوں کو بے روزگار کرنا تھا۔گیس کے ملکی ذخائر تیزی سے سکڑ رہے تھے لیکن برق رفتاری سے ٹرانسپورٹ کا شعبہ سی این جی پر منتقل کر دیا گیا۔ ملک بھر میں سی این جی سٹیشنوں اور گاڑیوں کے سلنڈروں پر بے دردی کے ساتھ سرمایہ لٹایا گیا۔ افغانستان اور دیگر معاملات پر امریکہ کے سامنے سربسجود ہونے کے بعد عالمی پابندیوں کے شکار ایران سے گیس کی خرید پر خوامخواہ ایک سخت موقف اختیار کیا گیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آج تک ایرانی گیس پاکستان نہیں پہنچ سکی ۔ معاہدہ ،حتیٰ کہ بات چیت کے لیے بھی موزوں وقت وہ ہوتا ، جب ایران اور عالمی قوتوں میں سمجھوتے کے نتیجے میں پابندیاں ہٹ جاتیں۔ پرویز مشرف کے دور میں کراچی اور فاٹا میں ملک گیر تباہی کی مضبوط بنیادیں تعمیر کی گئیں ۔ وہ خاموشی سے یہ سب دیکھتے رہے کہ سیاسی مفاد انہیں عزیز تھا۔ پھر یہ کہ ہر فوجی حکومت کو بالآخر سیاسی قوتوں کے اتحاد اور سول سوسائٹی کی تحریک کے نتیجے میں رخصت ہونا ہوتا ہے ؛لہٰذ ا معاشی طور پر جو عارضی سا استحکام اس دوران ہم نے دیکھا، بالآخر وہ زمین بوس ہو گیا۔آٹھ برس ضائع ہوئے اور قوم کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔
ملکی سیاست میں اپنا برا بھلا کردار ادا کرنے کے بعد پرویز مشرف بیرونِ ملک مقیم تھے ۔ جنرل کیانی کے ایما پر جنرل شجاع پاشا نے ان سے ملاقات کی اور ملک واپس نہ لوٹنے کا پیغام دیا۔ اپنی ضد پر وہ قائم رہے ۔ ملک واپس آئے ۔ اللہ اللہ کر کے جنرل کیانی نے سیاست سے قطعی لا تعلقی اختیار کر کے فوج کی ساکھ بحال کی تھی ۔پرویز مشرف نے عسکری قیادت کے لیے ایک مشکل صورتِ حال پیدا کر دی ۔ برسبیلِ تذکرہ ، جو لوگ آج جنرل کیانی پر طعنہ زنی فرما رہے ہیں ، انہیں جنوبی وزیرستان اور بالخصوص سوات کا آپریشن یاد کرنا چاہیے ۔ سوات تو مکمل طور پر فتح ہو چکا تھا۔ جنرل کیانی نے جوانوں اور افسروں کی مدد سے اسے واپس حاصل کیا۔ یکے بعد دیگرے قبائلی ایجنسیوں میں ایک کے بعد دہشت گردوں کو دوسرا زخم لگایا۔ اس کے باوجود کہ قوم دہشت گردوں کے بارے میں قطعاً یکسو نہیں تھی ۔ میڈیا ، سیاست دانوں اور ان کے زیرِ اثر عام شہریوں میں بھی طالبان کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا تھا۔
پرویز مشرف کے دور میں اچھے کام بھی ہوئے۔ چوہدری برادران نے شریف حکومت سے بڑھ کر ترقیاتی کام کئے۔ 1122کی سروس اس کی ایک بڑی مثال ہے ۔بعد ازاں سستی روٹی جیسے منصوبے توناکام ہوئے۔ لیپ ٹاپ سے میٹرو اور دانش سکول تک ، ہر کہیں بے دردی سے سرمایہ لٹایا گیا ؛حالانکہ آبادی کے کچلے ہو ئے غریب اور بدحال طبقے کو اس کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہوا۔پنجاب بھر میں عام سکولوں اور ہسپتالوں کی صورتِ حال آپ کے سامنے ہے ۔قوم کے سرمائے سے سستی مقبولیت کا حصول ان منصوبوں کا واحد ہدف تھا۔
پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے اور بارودی سرنگیں بچھانے کا جنرل پرویز مشرف کا منصوبہ بڑی دور اندیشی پر مبنی تھا، کرزئی حکومت نے جسے بڑی چابک دستی سے ناکام بنا دیا۔برسبیلِ تذکرہ ، امریکی کانگریس سے خطاب سے قبل صدر اشرف غنی نے یہ کہا ہے : شمالی وزیرستان آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کو افغانستان دھکیلنا کوئی کامیابی نہیں ۔ سیاسی اور عسکری قیادت کو افغانستان کے معاملے پر سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے ۔ بہرحال ، آخری تجزیے میں پاکستانی سیاست میں مہم جو پرویز مشرف کااب قطعاً کوئی کردار نہیں ۔یہی معاملہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے ۔ ایٹمی پروگرام کے ایک نازک مرحلے پر انہوں نے اہم کردار ادا کیا مگر یہ بات غلط ہے کہ یہ کلیدی تھا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند سمیت، ہر کسی نے اپنا کردار ادا کیا۔سیاسی میدان میں ڈاکٹر قدیر خان مکمل طور پر ناکام رہے ہیں ۔ مستقبل میں اپنا سیاسی کردار تلاش کرنے کی کوشش میں ، وہ اپنا قد کاٹھ گھٹا لیں گے ۔
بات ایم کیو ایم سے چلی تھی ۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اپنے اندر اب اسے جوہری تبدیلیاں لانی پڑیں گی ۔ بصورتِ دیگر اسے سخت تکلیف دہ صورتِ حال سے گزرنا ہو گا۔دوسری طرف تحریکِ انصاف ہے ، درست طور پر اپنے پتّے کھیل کر جو اس ساری صورتِ حال سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے ۔ کیا وہ ایسا کر پائے گی ؟ حلقہ این اے 246کے الیکشن میں یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی ۔یہ تو ظاہر ہے کہ ایک واحد حلقے میں پولنگ کے دوران دھاندلی تقریباً ناممکن ہوتی ہے ۔ پھر رینجرز نے شہرِ قائد میں دھاک بٹھادی ہے ۔
کراچی کی بدلتی ہوئی صورتِ حال سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک سبق ہے ۔ یہ کہ اسلحے اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر قائم غلبہ جلد زیادہ سے زیادہ چند عشرے تک قائم رہ سکتاہے ۔ صرف سیاسی بنیاد اور کارکردگی کے بل پر حاصل کر دہ کامیابی ہی سیاسی جماعتوں کے دامن میں باقی رہتی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں