"FBC" (space) message & send to 7575

وزیرستان کی آخری شہادت

سکندر بخت اپنی اولاد میں مجھے سب سے زیادہ عزیز تھا۔یہ نہیں کہ میری باقی اولادبرائیوں کاشکار تھی ۔ چاروں میں سے ہر ایک اپنی جگہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک تھا لیکن سکندر جیسے بچّے روز پیدا نہیں ہوتے۔ پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ بے حد تندرست و توانااور گورا چٹا بچہ۔اس کے اندر توانائی اور بے چینی کوٹ کوٹ کے بھری تھی ۔اس کی خوراک دو تندرست بچّوں کے برابر تھی ۔ وہ ذہین فطین تھا۔ ابھی وہ گنے چنے چند الفاظ ہی سیکھ پایا تھا اور لڑکھڑا کر ایک آدھ قدم ہی اٹھا پاتا تھا،جب اس نے پہلی شرارت کی۔ وہ زمین پر لیٹ جاتا اور یوں شور مچاتا جیسے چلتے چلتے گر گیا ہو ۔ سب صدقے واری جاتے لیکن میرے سوا کوئی اور اسے اٹھانے کی کوشش کرتا تو وہ ہنگامہ کھڑا کر دیتا۔
پانچ برس کی عمر میں اس نے پہلی بار وردی میں ملبوس پاکستانی فوج کے جوان دیکھے ۔ اس دن کے بعدکوئی دوسرا لباس گویا اس کے لیے حرام ہو گیا۔ سوتے جاگتے وہ وردی میں ملبوس رہتا ۔ اس کے کمرے میں کھلونا رائفلوں کا ایک ڈھیر لگا ہوتا۔ آٹھ برس کی عمر میں دریائے سندھ کے کنارے جب وہ گھڑ سواری کیا کرتا تو کھلونا رائفل کی جگہ ایئر گن لے چکی تھی ۔ جلد ہی وہ جنگلی جانورشکار کرنے لگا اور دو نالی والی بندوق اٹھائے پھرتا۔ میں اعتراض کیوں کرتا کہ نصابی سرگرمیوں میں وہ اپنے ہم جماعتوں سے بہت آگے تھا۔ وہ کئی کئی دن کے بعد لوٹتا تو ملازم بھاگ کر جاتے اور گاڑی سے شکار کیے ہوئے جانور اتارنے لگتے ۔
پھر اس نے پہلوانی شروع کی ۔ آٹھ آٹھ گھنٹے وہ کسرت کرتا۔ پہلے ہی وہ اپنے ہم عمروں سے پانچ سات برس بڑا نظر آتا تھا۔ اب اس کا جسم ایک سانچے میں ڈھل گیا۔ یہاں اس کے اندر کی بے چینی شدّت سے عیاں ہوئی ۔ دنگل والی رات بڑی بھاری ہوتی ۔ پہلے ہی اس کی خوراک بہت زیادہ تھی ۔ اس دن وہ اپنے معمول سے بھی دو تین گنا زیادہ کھاتا۔ بے چینی سے ٹہلتا رہتا۔ اس کے ماتھے پر شکنیں ابھرآتیں اور رگ و پے میں جیسے لہریں دوڑ رہی ہوتیں ۔ اس لمحے اس کی کیفیت اس شیر کی طرح ہوتی جو شکار پر جھپٹنے کے لیے بے تاب ہو لیکن پنجرے میں بند۔ اپنی غیر معمولی ذہانت کی بنا پر چند منٹ کے اندر وہ مقابل کے لڑنے کے انداز ، اس کے خاص دائو پیچ اور کمزوریوں ، سبھی سے واقف ہو جاتا۔ جسمانی طور پر پہلے ہی وہ سب پر حاوی تھا۔ایک برس کے اندر اندر سبھی نامی گرامی پہلوانوں کو ہرا چکا تھا ۔ پھر وہ اس سے بھی بے زار ہو گیا۔
ہماری طرف زیادہ پڑھنے کا رجحان نہیں لیکن اس نے کالج میں داخلہ لیا۔یہی نہیں ، وہ شہر سے بوری بھر کتابیں لاتا اور انہیں پڑھتا رہتا۔ اس کی گفتگو میں ایک خاص ڈھنگ پیدا ہوا۔ وہ شعر پڑھتا ؛حالانکہ انہیں سمجھنے والا کوئی تھا ہی نہیں ۔ سب حیرت سے اسے دیکھتے ۔ تب وہ قہقہہ لگا کر ہنستا۔رات میری آنکھ کھلتی تو میں اس کے کمرے میں جھانکنے لگتا اور یہ سوچتا : جانے خدانے مجھے کیوں یہ گوہرِ نایاب سونپ دیا ۔
اس دوران وہ زمینوں اور جانوروں کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ کوئی منہ زور گھوڑا سدھانے اترتا تو ضدی جانور گویا اس کے رعب سے کانپنے لگتے ۔چند ماہ کے اندر اس نے کایا پلٹ کے رکھ دی ۔ میری آمدن کم از کم دگنی ہوگئی اور یہ وہ کام تھا، جو اس کے سارے بھائی مل کر بھی نہ کر پائے تھے ۔ ملازم اس سے خوفزدہ رہتے ؛حالانکہ وہ ان پر سختی نہ کرتا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمسایہ زمیندار کے آدمیوں نے ہمارے نوکر بخشو پر تشدد کیاتوسکندر اس کے ڈیرے پر گیا ۔ درجنوں مسلّح آدمیوں کی موجودگی میں اس نے ان دونوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا اور مداخلت کی کسی کو جرأت نہ تھی ۔
اس اثنا میں بچپن کی محبت جاگ اٹھی۔ وہ فوج میں کمیشن حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ گیا۔ ہر امتحان اور آزمائش میں وہ کامیاب رہا لیکن انہوں نے اسے بتایا کہ قد کاٹھ کے اعتبار سے اس کا وزن چار کلو زیادہ ہے ۔ اسے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ۔ اس کے جسم پر اضافی گوشت تو تھا ہی نہیں لیکن وہ چوڑا چکلا تھا، ہڈیاں بھاری تھیں ۔ یہ اضافی وزن گوشت نہیں ، ڈھانچے کا تھااور کسرت سے کم نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ فاقے کرنے لگا ۔ محض اتنا کھاتا، جتنا زندہ رہنے کے لیے ضروری تھا۔ مہینہ ختم ہونے تک وہ چھ کلو وزن کم کر چکا تھا۔ سکندر بخت فوج میں بھرتی ہوگیا۔ مبارک باد کے پیغام آنے لگے ۔
ملک میں شورش برپا تھی ۔ اسلام کا نام استعمال کرنے والے مسلّح گروہوں نے بغاوت کر رکھی تھی ۔ انہی دنوں وہ تین روز کی رخصت پر آیا۔ میرے کان میں اس نے یہ کہا : آپریشن کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جلد میں میدانِ جنگ میں اتروں گا۔ میں اپنے جگر گوشے کو آنکھوں میں اتارنے لگا۔ یہ آنکھیں نمی سے بھرپور تھیں ۔ میرا دل بے قرار ہونے لگا ۔ میں اسے روکنے لگا لیکن پھر اولاد کی محبت پر وطن کا عشق غالب آگیا۔میں چپ رہا۔
اب اس کی وہی حالت تھی ، جو دنگل سے پہلے ہوا کرتی ۔ وہ بے تحاشا کھا رہاتھا۔ اس کی آنکھیں سرخ اور ماتھے پربل پڑے تھے ۔ رگ وپے میں اضطراب تھا۔ کبھی وہ کسرت کرنے لگتا اور کبھی بندوق اٹھا کر جنگل میں نکل جاتا۔ رات کو میری آنکھ کھلی ۔ بے قرار ہوکر کھڑکی سے میں اس کے کمرے میں جھانکنے لگا او ریا للعجب ، وہ سجدے میں پڑا ہے ۔ اخلاقی برائیوں سے وہ کوسوں دور تھا لیکن اس کا یہ روپ بھی میں پہلی بار ہی دیکھ رہا تھا۔ میں ٹہلتا رہا اور اسے عبادت میں مشغول دیکھتا رہا۔اس رات پہلی بار وہ روحانی جہت سے آشنا ہوا تھا، اس لیے کہ صبح وہ بے حد پرسکون بلکہ مسرور تھا۔ پہلی بار بات بے بات میں نے اسے مسکراتے دیکھا۔ تین روز بعد جب وہ محاذ پہ روانہ ہونے لگا تو اسی طرح ترنگ میں تھا۔میں اپنے اس شہسوار کے صدقے واری جانے لگا۔
پاک افغان سرحد پر یہ دشوار ترین آپریشن 9ماہ تک جاری رہا۔ دشمن یہ ساری زمین بارودی سرنگوں سے بھر چکا تھا۔ زیادہ جانی نقصان انہی کے نتیجے میں ہورہا تھا۔ بہرحال خطے کے ممالک سمیت عالمی برادری پاکستان کی کامیابی کااعتراف کر رہی تھی ۔ آخر آپریشن اپنے اختتام کو بڑھا ۔ مہاجرین کی واپسی کا مرحلہ شروع ہوا...اور پھر وہ سکندر کو لے کر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی تھی ۔پھر وہ بتانے لگے کہ شہادت سے قبل کیسا کیسا کارنامہ میرے سپوت نے انجام دیا تھا۔
میرا کلیجہ ٹھنڈا ہے ۔ قومی پرچم میں لپٹے اپنے بیٹے پر میں قربان ہو رہا ہوں ۔ وہ دن یاد آیا، جب پہلی بار میں نے اسے دیکھا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک خاص مقصد کے لیے یہ امانت خدا نے مجھے سونپی تھی اور پھر واپس لے لی ۔
سکندر کے چہرے پر کیسا نور برس رہا ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ وہ اپنے بچپن کو لوٹ گیا ہے ۔ جب وہ زمین پرلیٹ جاتا تھا اور باپ کے سوا کسی کو اٹھانے کی اجازت نہ دیتا تھا۔میرا راج دلارا، میرا شہسوار ۔ میرا سکندرِ اعظم!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں