ایک عجیب رنگ میں پاکستانی سیاست رنگی ہوئی ہے ۔ 21ویں صدی کے اس دور میں بھی کچھ لوگ یہاں آپ کو محظوظ کرتے چلے جائیں گے ۔ مثلاً یہ کہ ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ اکثر و بیشتر یا تو غیر ملکی دوروں میں مشغول نظر آئیں گے یا بیرونِ ملک سے آنے والے وفود سے ملاقاتوں میں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسی ہر ملاقات کے بعد اہم اخبارات میں ایک خبر بڑے اہتمام سے شائع کرائی جاتی ہے ۔ غیر ملکی حکومتوں کے نمائندے ہمیشہ وزیرِ اعلیٰ کے غیر معمولی وژن ، صلاحیت اور ریاضت کی تعریف کریں گے۔ یہ معمول سالہا سال سے جاری ہے ۔ حسبِ ضرورت یہ صاحب بیرونِ ملک جانے والے مرکزی حکومت کے اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت کرتے بھی نظر آئیں گے ۔
عمران فاروق قتل اور منی لانڈرنگ کیس ماضی قریب کے قصے ہیں ۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے 44سال بعد فوج کے بارے میں جناب الطاف حسین کا بیان ابھی کل کی بات ہے ۔ حماد صدیقی، صولت مرزااور معظم علی جیسوں سے منسوب واقعات کے منظرِ عام پہ آنے سے برسوں پہلے سے مخلوق کی زبان پر یہ قصے عام تھے ۔ یہ کہ متحدہ قومی موومنٹ کیسی سرگرمیوں میں ملوّث ہے ۔ اس دوران ریاستِ پاکستان کی مرکزی حکومتیں لمبی تان کر سوتی رہیں ۔ پرویز مشرف کے دور میں کیا ملک کی سب سے لبرل پارٹی کے طور پر اس کی دستار بندی نہ کی گئی تھی ؟کیا فوج کے خلاف الطاف حسین کی تقریر اشتعال انگیزی کی پہلی مثال ہے یا پہلے بھی ان کے بیانات مسائل کا باعث بنتے رہے ؟ دو عشرے تک ریاست گونگی بہری کیوں بنی رہی ؟ سلطنتِ برطانیہ سے اس نے مطالبہ کیوں نہ کیا کہ اپنے معزز شہری کو زبان بند ی کا حکم دے ۔جابر حکومتوں کے خلاف کلمۂ حق کی ادائیگی پر اپنی ستائش کرنے والے ''آزاد‘‘ میڈیا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
چودہ برس سے دہشت گردی کا سامنا کرتی اس ریاست میں ملّافی سبیل اللہ فساد میں مشغول ہے ۔ حد یہ ہے کہ اسلام آباد کے مرکز میں لال مسجد میں القاعدہ کے دہشت گرد مورچہ زن ہو کر کئی دن تک فائرنگ کرتے رہے ۔ اس کے باوجود، آپریشن ضربِ عضب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بننے والی جماعتوں میں سے ایک کے سربراہ کا بیان یہ تھا: آج تک کسی ایک بھی دہشت گرد کا تعلق مدارس سے ثابت نہیں ہو سکا۔ یہ بات درست ہے کہ مدارس کی اکثریت کا دہشت گردی سے تعلق نہیں ؛اگرچہ فرقہ پرست وہ بہرحال ہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ باقی ماندہ پانچ یا دس فیصد عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ جنت کا کام کرتے رہے ہیں۔ مذہب کا نام استعمال کرنے والے ایسے مدارس اور تنظیموں سے فارغ التحصیل دہشت گردوں کے نام سامنے لانا کس کی ذمہ داری ہے ؟ کئی مولوی حضرات سے ملاقات کے دوران امامِ کعبہ نے بجا طور پر داعش اور طالبان کی سخت مذمت کی۔ ایسے مذہبی‘ سیاسی لیڈر ہی تو شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے ۔ فوجی آپریشن کے خلاف اور طالبان کے حق میں انہوں نے سیاسی ڈھال کا کردار ادا کیا۔ اس دوران درجنو ں سکیورٹی اہلکار اور بے گناہ شہری طالبان حملوں کا نشانہ بنے ۔
ہمارے سیاسی لیڈر خود فریبی اور دروغ گوئی کی اعلیٰ مثالیں
پیش کرتے نظر آئیں گے۔ ایک سابق صدر نے فرمایا ہے کہ یہ تو مشرف کی باقیات ہیں ، جو لیاری میں آج تک خون بہاتی چلی آرہی ہیں ۔ جنر ل مشرف کے کارنامے اپنی جگہ ، سب جانتے ہیں کہ لیاری کس کا ہیڈ کوارٹر ہے ۔ وہ مقدس ہستی کون ہے ، جو عزیر بلوچ ایسوں کی پشت پناہ بنی رہی ۔کیا 2008ء سے 2013ء کے پانچ برسوںمیں یہ پیپلز پارٹی کا دور نہ تھا، جب کراچی میں پانچ ہزار افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ؟ کیا مختلف سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے جواب میں مسلّح لشکر نہیں پالے ؟ کیا وہ بھتہ خوری میں مشغول نہ رہے ؟
حلقہ این اے 246کے انتخاب میں گڑ بڑ کی کوشش کرنے والے چار افراد کو رینجرز حکام نے گرفتار کیا اور موقعے پر سزا سنائی ۔ حق بات یہ ہے کہ رینجرز کی طرف سے مکمل سکیورٹی انتظامات اور تمام ٹی وی کیمروں کا رخ 23اپریل کے الیکشن پر ہونے کی بنا پر وہاں کسی قسم کی دھاندلی نہ ہو سکی ۔ اس پر شکست تسلیم کرنے کی بجائے جناب سراج الحق کا یہ بیان کہ ٹھپہ مافیا کی وجہ سے جماعتِ اسلامی ناکام ہوئی ، ان کے شایانِ شان نہ تھا۔ لیڈر جب سچ بولنے کی جرات نہ کرے گا تو عقیدت رکھنے والے پیرو کار کیا کریں گے ۔ سچ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں جماعتِ اسلامی ایک ناکام تجربہ ہے ۔ وجوہ پہ غور اور ان کا تدارک کرنے کی بجائے، سورج کی طرح روشن حقیقت کو جھٹلانے سے وہ بدل نہیں سکتی ؛البتہ آپ کا قد چھوٹا ہو جائے گا۔
کپتان کا اصرار ہے کہ 2015ء الیکشن کا سال ہے ۔ جوڈیشل کمیشن مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہے ۔ 2013ء کا الیکشن دھاندلی زدہ یا شفاف ہونے کا فیصلہ اسے ہی کرنا ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عام انتخابات والا ایک پورا سال عمران خاں نے ایسا پارٹی الیکشن منعقد کرانے میں صرف کیا، جس کی شفافیت جسٹس وجیہہ الدین اور ان کے ساتھیوں نے طشت از بام کر دی ہے ۔ اسی اغوا شدہ پارٹی الیکشن کے نتیجے میں وہ با اثر افراد ابھر کر سامنے آئے ، جو عام انتخا بات میں پارٹی ٹکٹ کی تقسیم پر بری طرح اثر انداز ہوئے ۔ جہاں جس کا بس چلا، وہ کھل کھیلا۔ کپتان جسٹس وجیہہ الدین کے انصاف کی تاب لا سکا اور نہ اپنی پارٹی کی اصلاح پہ آمادہ ہے ۔ تمام تر سیاست اس خواہش کو پالنے پوسنے اور اس کے اظہار تک محدود ہے کہ آج ہی نئے الیکشن منعقد ہونا چاہئیں ۔ حالات کے بے رحم دھارے نے کب کسی کی خواہشات کا احترام کیا ہے؟
کینیڈا کی شہریت رکھنے والا ایک شخص کنٹینر پر براجمان ، ہفتوں ہمیں یر غمال بنا سکتاہے ۔ نہیں صاحب، جنون کی یہ روش بدل ڈالیے وگرنہ یہ ہمیں تباہی تک لے جائے گی ۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی سیاست کے او ل جلول لیڈروں پہ فاتحہ پڑھ دی جائے ۔یہ تونئے کھلاڑیوں کے ظہور کا وقت ہے ۔