دانشور صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ مہنگی کھاد سکینڈل میں جی ایچ کیو سے فون ہمارے فیورٹ جنرل نے کیا تھا۔ جی ایچ کیو کے ڈیٹا تک رسائی پر ایک آدھ نشانِ حیدر انہیں لازماً دیا جانا چاہیے ۔ فیورٹ جنرل کے اور بہت سے گناہ ہیں‘ مثلاً بے نظیر بھٹو کو مکمل سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا جرم درحقیقت انہی کا تھا۔ پیپلز پارٹی کو پانچ سالہ دورِ حکومت میں 8ہزار ارب روپے ڈکارنے کا مشورہ بھی انہی نے دیا تھا۔ ملکی قرض چھ ہزار ارب سے چودہ ہزارارب تک جا پہنچا تھا۔وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی آل اولاد کو ایفی ڈرین سکینڈل اور حاجیوں کو لوٹنے پر انہی نے اکسایا تھا۔ فیورٹ جنرل کی رٹ کیا لگانی ، سیدھی طرح میں جنرل کیانی کا نام لے لیتا ہوں ۔ بظاہر قومی افق پر وہ ڈی جی آئی ایس آئی بننے کے بعد نمودار ہوئے تھے ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ خاموشی سے وہ بہت پہلے سے اپنا کردار ادا کر رہے تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو انہی نے تو مجبور کیا تھا کہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے خواہشمند اپنے اراکین کی ٹانگیں توڑ نے کا اعلان کریں ۔شیخ مجیب الرحمٰن کو انتقالِ اقتدار کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر کے جنرل یحییٰ کے ہمراہ انہوں نے مشرقی پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی ۔ یہی نہیں ،جنرل نیازی کے مشیرِ خاص کی حیثیت سے ہتھیار ڈلوانے میں سب سے اہم کردار بھی انہی کا تھا۔
یہ تو ہو گئی مزاح کی بات۔ خوش خبری یہ ہے کہ راولپنڈی میٹرو مکمل ہو گئی ہے ۔ شہر ایک ہیبت ناک پل کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ راولپنڈی اسلام آباد کے باسی اب کم خرچ میں آمدورفت کر سکیں گے ۔ میاں محمد شہباز شریف کی حکومت مبارک باد کی مستحق ہے ۔ صرف ایک سال میں انہوں نے جڑواں شہروں کا نقشہ ہی بدل ڈالا ہے ۔ یہ نقشہ خاصا خوفناک ہے ۔
دو سال قبل اپنی والدہ کے ہمراہ میں ڈائیوو بس کے ذریعے فیصل آباد سے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوا۔ پندرہ بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ ہائی بلڈ پریشر کے سبب والدہ کی حالت بگڑنے لگی ۔ بس کے ڈرائیورسے میں نے التجا کی کہ ہمیں کسی ہسپتال کے سامنے اتار دے ۔ہمارے ہمراہ کوئی سامان نہ تھا۔ اس پر وہ شکوک و شبہات کا شکار ہوا۔ ملک دہشت گردی کا شکار ہے اور اسے یہ فکر لاحق تھی کہ بارود چھپا کر ہم فرار ہونا چاہتے ہیں ۔ بہرحال بڑی تو تکار کے بعد اس نے ہمیں فیصل آباد کے ایک مشہور ہسپتال کے سامنے اتار دیا۔
ایمر جنسی میںایک معالج اور سو بیمار۔ کوئی خون میں لت پت، کسی کی سانس رکی ہوئی ۔ ہمارا رکھ رکھائو دیکھ کر پھر بھی اس بھلے مانس ڈاکٹر نے توجہ دی ۔ اس دوران کچھ پشتون مزدور اپنے ایک ساتھی کو اٹھا کر لائے۔ اس کا سر بری طرح زخمی تھا، خون بہہ رہا تھا۔ ڈاکٹر کس کس کو دیکھتا۔ ہر مریض کو دیکھنے ، تشخیص کرنے اور دوا لکھنے کو ایک کم از کم وقت درکار ہوتاہے ۔ ادھر مزدور کے عزیز نے کانپ کر کہا: ''اسے دیکھو، یہ مرتا ہے‘‘۔ اسے دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ خود غرضی کا ایسا عالم تھا ، گویا ہم حشر کے میدان میں کھڑے ہیں ۔
ایک مریض ایسا تھا،جس کے لواحقین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔انہوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ڈاکٹر کو دھمکیاں دیں ۔ ہسپتال کے دوسرے حصوں سے عملہ بھاگتا ہوا آیا۔ انہیں باہر نکال دیا گیا۔ اس دوران والدہ کی حالت کچھ سنبھلنے لگی اور میرا بھائی ان کے پاس موجود تھا۔ میں باہر نکلا تو ایمرجنسی کی جنت سے نکالا گیا آدم فون کر کے نفری منگوا رہا تھا کہ ڈاکٹر حضرات کا دماغ درست کر سکے ۔ والدہ ٹھیک ہو گئیں اور ہم واپس آگئے ۔ کون جانے اس دوران ایک دو مریض لقمہ ء اجل بن گئے ہوں۔
یہ دو ماہ پہلے کی بات ہے ۔ ایک بڑے اخبار میں لکھا تھا: فیصل آباد کے ایک ہسپتال میں ہنگامہ ، مریضوں نے شیشے توڑ دیے ۔صحت کے شعبے کا حال آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ ہمارا تعلیمی نظام بسترِ مرگ پر ہے ۔ جنوبی پنجاب کی محرومیاں ہمارے سامنے ہیں ۔ ان سب حالات میں خادمِ اعلیٰ یہی کر سکتے ہیں کہ کم ا ز کم 100ارب روپے سے لاہور اور راولپنڈی میں میٹر و بنا دیں ۔ یہی نہیں ، اب غالباً ڈیڑھ سو ارب روپے سے لاہور میں میٹرو ٹرین بھی ۔ غالباً ملتان میں بھی ایسا کوئی منصوبہ زیرِ غور ہے ، جس کے بعد سینہ پھلا کر جنوبی پنجاب کی محرومیاں دفن کر ڈالنے کے دعوے ہوں گے ۔ تعلیمی نظام چند دانش سکولوں کے ذریعے پہلے ہی سنوارا جا چکا ہے ۔ 2008ء سے 2013ء کے درمیان پنجاب میں نون لیگ کی حکومت نے بجلی کے کتنے منصوبے لگائے؟ وہ آپ کو بتائیں گے کہ نندی پور پروجیکٹ کے لیے مرکزی حکومت کی ضمانت درکار تھی ، جو اس نے نہیں دی۔ حیرت انگیز طور پر اس دوران اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے میاں محمد نواز شریف پر تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کی پابندی مرکزی حکومت نے ختم کرا دی تھی۔ لیکن وہ بجلی کے منصوبے میں رکاوٹ تھی ۔ اس منصوبے کی راہ میں ، جس سے خود اسے بھی فائدہ ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے نیم دلی سے ایک نیم کش تیر چلایا تھا۔ بعد میں اس نندی پور میں جو جو تماشا ہوا ، وہ دہرانے کی ضرورت نہیں ۔
راولپنڈی میٹرو کے خوفناک پلوں کے نیچے تاجر وں کی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں ، جن کی قیمتیں گر چکی ہیں ۔ ایک سال سے وہاں کا رخ نہ کرنے والوں نے خریداری کے لیے اب نئے مراکز ڈھونڈ لیے ہیں ۔یہ سب برداشت کیا جا سکتا تھا، منصوبے کے نتیجے میں اگر بالاخر عوام کو فائدہ پہنچتا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ میٹرو سے فائدہ اٹھانے والے کم اور اس کے ڈسے ہوئے زیادہ ہیں ۔ یوں آئندہ عام انتخابات میں یہ نون لیگ کے لیے پھندا بن جائے گا۔ راولپنڈی میں اگر کسی چیز کی ضرورت تھی تو وہ یہ کہ دو چار ارب روپے سے سڑکیں کھلی کر دی جاتیں اور کسی پرائیویٹ ٹرانسپورٹر کو بسیں چلانے کا ٹھیکہ ۔ دانش سکول، میٹرو بسیں اور لاہور کی میٹرو ٹرین ، یہ منصوبے اسی طرح ہیں، گویا بسترِ مرگ پہ پڑے مریض کے لیے سوئمنگ پول بنا دیا جائے۔
کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر ایک تصویر زیرِ گردش تھی ۔ میاں شہباز شریف میٹرو ٹرمینل میں تیز رفتاری سے قدم اٹھا رہے تھے اور حنیف عباسی اینڈ کمپنی ہانپتی کانپتی ان کے پیچھے تھی ۔ اس کے نیچے کسی دل جلے نے یہ لکھ دیا تھا ''خادمِ اعلیٰ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ فنڈز درست طریقے سے ضائع ہو رہے ہیں‘‘میاں شہباز شریف صاحب نے ایک بار یہ فرمایا تھا ''میں د ن میں سولہ گھنٹے کام کرتا ہوں اور میرے پاس سوچنے کا بھی وقت نہیں‘‘ اس پر ان کے ایک بہی خواہ نے مشورہ دیا تھا کہ وہ چار گھنٹے سوچا کریں اور پھر بارہ گھنٹے کام کر لیا کریں ۔ افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔