بنگلہ دیش کیا ہے ؟ ایک ایسا ملک ، جس کے تین اطراف بھارت اور چوتھی طرف سمندر واقع ہے ۔جو بھارت کے بیچ رکھا ہے ۔ پاکستان اور بنگال کے درمیان بھارت سے گزرنے والا زمینی راستہ کم و بیش دو ہزار کلومیٹر طویل ہے ۔یہاں پتھر پوجنے والی ایک ایسی قوم آباد ہے ، میڈیا ، حکومت اور سیاستدانوں کی صورت میں جس کی قیادت انتہا پسندوں کے ہاتھ ہے ۔ سمندری راستہ بھی کم خطرناک نہیں۔ کراچی سے پاک بحریہ ممبئی ، گوا اور کیرالہ کے قریب سے گزرتی ۔ پھر وہ بھارت اور سری لنکا کے درمیان ہوتی ہوئی چنائی اور کلکتہ سے خلیج بنگال پہنچتی ۔ ظاہر ہے کہ اس سارے راستے میں بھارتی بحریہ استقبال کے لیے موجود ہوا کرتی ۔ قصہ مختصر یہ کہ جغرافیائی طور پر مشرقی پاکستان کا دفاع ناممکن تھا۔شایدیہی وجہ ہے کہ ابتدا میں اقبالؔ سے دو آزاد مسلم ریاستوں کا تصور منسوب کیا جاتاہے ۔
1970ء کے انتخابات کے بعد ہوا کیا تھا؟ آرمی چیف جنرل یحییٰ خاں سمیت اس وقت کی فوجی قیادت کا کردار کیا تھا اور بھٹو نے کون سے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ۔ دوسروں کو ہیرو پالنے اور شخصیت پرستی کا طعنہ دینے والے سقوطِ ڈھاکہ میں بھٹو کے کردار پر کبھی روشنی نہ ڈالیں گے ۔ سستے نعرہ فروش احساسِ کمتری کی ماری اس قوم کوکامیابی سے بہکا لے گئے تھے ۔ ایک کمزور مقدمے میں انہیں سولی چڑھا دیا گیا اور وہ مظلوم ٹھہرے ۔ اسی رو میں قوم بہکتی ہے تو پھر بے نظیر بھٹو کے قتل پر آصف علی زرداری کو حکمران بنا ڈالتی ہے ۔ نتیجہ یہ کہ آٹھ ہزار ارب روپے ہضم، کراچی میں پانچ ہزار لاشیں اورحسین حقانی جیسے سفیر، جو عالمی اخبارات میں پاکستان مخالف مضامین تحریر فرماتے ہیں ۔توانائی بحران میں ایک آنے کی کمی نہیں اور بے روزگاری کا طوفان۔ یہ ہے ہماری قومی بصیرت اور اس کے سرخیل ہیں جدید بابائے جمہوریت ، چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربّانی ۔
خون عجیب چیز ہے ۔لیڈر قتل کر دیا جائے تو امر ہو جاتاہے ۔ حیدر علی ٹیپو سلطان سے کہیں بڑا جنرل تھا۔ اس نے سکھوں، انگریزوں اور مرہٹوں کی مشترکہ سپاہ کو پیس کے رکھ دیا تھا ۔ تاریخ اس کا ذکر اپنے عالی قدر فرزند کے بعد ہی کرتی ہے ۔
یحییٰ خان تو ظاہر ہے کہ برسرِ اقتدار تھا۔ انہی نے الیکشن کرائے اور کسی طور بھی وہ بے قصور قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مجیب الرحمن علیحدگی چاہتا تھا ۔یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمن کے مقابل صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی تقسیم روکنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔کیا انہوں نے یہ کہ مجیب الرحمن کی 160نشستوں کے مقابل صرف 81سیٹیں جیتنے کے بعد بھی اقتدار کو اپنا آبائی حق سمجھ کر دھاڑتے رہے ۔ بجائے اس کے کہ فوجی آمر سے وہ اقتدار مجیب الرحمٰن کے حوالے کرنے کا
مطالبہ کرتے ، انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے والے پیپلز پارٹی کے اراکین کی ٹانگیں توڑ دینے کا اعلان کیا۔ کہا : سندھ اور پنجاب اقتدارکا سرچشمہ ہیں اور ان کی چابیاں میری جیب میں ہیں ۔ یہ چابیاں انہوں نے اپنے نیفے سے اس وقت باہر نکالیں ، جب مشرقی پاکستان الگ ہو چکا تھا۔شیخ مجیب الرحمٰن اور یحییٰ خان کے چہرے پر تو تاریخ نے کالک ہی مل دی ، تقسیم روکنے کے لیے بھٹو نے کون سا کارنامہ سر انجام دیا ؟
ہم سے بھی کیا ہو سکا محبت میں
تم نے تو خیر بے وفائی کی
مجیب الرحمٰن مارا گیا۔ اسے سپریم لیڈ رقرار دینے والا آرمی چیف جنرل ضیاء الرحمٰن قتل ہوا۔مخالفین پہ زندگی تنگ کرنے والے بھٹو بالآخر پھانسی پہ لٹکا دیئے گئے۔سقوطِ ڈھاکہ پہ اظہارِ فخر کرنے والی،اقلیتوں کو روندنے والی اندرا گاندھی کو اس کے سکھ محافظوں نے قتل کر دیا۔ یحییٰ خان گمنامی کی موت مرا۔
شیخ حسینہ واجد او رنریندر مودی نے اپنی انتہا پسند کارروائیوں اور بیانات کے نتیجے میں ایک بار پھر برّصغیر اور پاکستان کی تقسیم سے پہلے کے حالات پیدا کر دیے ہیں ۔بنگلہ دیش کے ان متنازع انتخابات کے بعد ، جسے تمام اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کردیا تھا، تقسیم اور نفرت کی لہر بہت طاقتور ہو چکی۔بنگالی سرزمین میں شیخ مجیب الرحمٰن سے لے کر جنرل ضیاء الرحمن تک کے انجام پر غور کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں یہاں خون ہی خون نظر آتا ہے ۔ حسینہ واجد کا تختہ الٹ دیا جائے گا ۔ وہ قتل ہوں گی یا تختہ ء دار پہ جھول جائیں گی ۔ الیکشن سے قبل ہی انہوں نے تقسیم کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو پھانسی اور عمر قید دلوانے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اور تو اور1971ء کے واقعات پہ پاکستان سے معافی کا مطالبہ کیا۔ نفرت کا جو الائو انہوں نے دہکایا ہے ، اپنے باپ کی طرح انہیں بھی اسی کی نذر ہونا ہے ۔
حالات 1971ء سے ایک ہزار فیصد مختلف ہیں ۔ پاکستانی فوج جدید ترین اسلحے، میزائل اور ایٹمی پروگرام سے لیس ہے۔ لڑاکا طیارے ملک میں تیار ہو رہے ہیں ۔ تیرہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والی افواج آج پہلے سے زیادہ ہنر مند ہیں ۔ سوات، جنوبی اور شمالی وزیرستان میں لڑنے والے جوان اور افسر جنگی فنون سے اب عملی طور پر آشنا ہیں ۔پاکستانی میڈیا او رسیاستدان بھارت کے معاملے میں عمومی طور پر جہالت اور تعصب کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ اس مرتبہ بھارتی سرکار نے انہیں اس پر مجبور کر دیا ہے ۔ جنگ ہوئی تو دونوں طرف سے میزائل داغے جائیں گے ۔ بڑے شہر اور فوجی تنصیبات منٹوں میں خاک ہو جائیں گی ۔ یہ گزری دہائیوں کی جنگوں سے مختلف اور ہولناک تجربہ ہوگا۔ نریندر مودی کو یہ بات بخوبی معلوم ہے ۔
جنگ تو خیر ہوگی نہیں ''را‘‘کی مداخلت جاری رہے گی ۔ کیا ہمیں دشمن کو اسی کے سکّوں میں ادائیگی شروع کر دینی چاہیے؟ ایسا ہو یا نہیں، دونوں صورتوں میں ، عالمی برادری کے سامنے بھارتی مداخلت کے ثبوت لازماً پیش کیے جانے چاہئیں۔ پاکستان اس لیے جنگ کا متحمل نہیں کہ فوج کی توجہ افغانستان کی صورتِ حال ، کراچی ، بلوچستان ، قبائلی علاقے اور ملک بھر میں روپوش دہشت گردوں پر مرکوز ہے ۔ یہ بھی بہرحال کوئی حل نہیں کہ بے حیا بھارتی مداخلت پر ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں ۔ رہے نرریند مودی تو چینی دورے کے دوران پاکستان اور چین کے باہمی معاملے، اقتصادی شاہراہ پر ان کے اعتراض اور بنگلہ دیش کے قیام پر اظہارِ فخر سے ظاہر ہے کہ ذہنی طور پر وہ معذور ہیں۔