"FBC" (space) message & send to 7575

ٹھیک جگہ پہ وار

رینجرز اور فوجی قیادت نے اب ٹھیک جگہ ہاتھ لگایا ہے۔ مجرموں کے مالی وسائل پر ضرب لگی تو چیخیں بلند ہوئیں ۔ مخلوق بلوں سے نکل بھاگنے لگی۔ مجرموں کو بھوکا ننگا کرکے مارنے کے سوا اور کوئی ایسا راستہ نہیں ، جو ملک میں دیر پا استحکام لا سکے۔ کالی معیشت ختم نہ ہوئی تو پرانے ہر کارے مرتے اور نئے ان کی جگہ لیتے رہیں گے ۔ منشیات ، سمگلنگ ، اغوا برائے تاوان اور دشمن ممالک ، بالخصوص بھارتی مالی سرپرستی کے طفیل فضل اللہ اور حکیم اللہ محسود نے فوج تیار کی ۔
مجرموں کے وسائل پر ضرب لگانے کا عمل مستقل بنیادوں پر ہوناچاہیے ۔ دنیا بھر میں مجرم نظام میں موجود سقم ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خود کو بہتر (Up to date)بناتے ہیں ۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ ہے ۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں اربوں روپے چند سیکنڈ میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے سرے تک پہنچتے ہیں ۔ اسے روکنا ہوگا۔
دبئی ، لندن اور جنوبی افریقہ سمیت پاکستانی جرائم پیشہ کے بہت سے وطن ہیں ۔فوجی قیادت کی آشیر باد سے رینجرز نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پہلے لیاری گینگ وار، پھر ایم کیو ایم اور اب سندھ کی صوبائی حکومت میں مجرموں اور ان کے سرپرستوں پر ہاتھ ڈالا ہے۔ سندھ کابینہ دھڑا دھڑ اپنا سرمایہ دبئی منتقل کر رہی تھی ۔ اس کے ساتھ ہی ماڈل ایان علی گرفتار ہوگئی ۔ یہ دولت اس کی اپنی نہ تھی اورکچھ سنسنی خیز الزامات منظرِ عام پر آئے ۔ شرجیل انعام میمن کے فرنٹ مین سے دو ارب روپے برآمدگی کا الزام اپنی جگہ موجود ہے ۔ سندھ سے دبئی روانہ ہونے والی ڈالروں سے لدی لانچیں پکڑی گئی ہیں ۔
فروری 2015 ء میں ایک انگریزی روزنامہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے درمیان پاکستانیوں نے دبئی کی جائیدادوں میں 430ارب روپے " سرمایہ کاری "کی تھی ۔ کم و بیش اتنا ہی سرمایہ ہمیں ہر سال عالمی اداروں سے قرض لینا ہوتاہے (وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام ، انکم سپورٹ پروگرام ، میٹروبس او رلاہور کی 165ارب روپے کی میٹرو ٹرین کے لیے بھی کم و بیش اتنا ہی سرمایہ چاہیے )۔ اتنا ہی سرمایہ ، ریلوے اور سٹیل مل سمیت سرکاری کارپوریشنیں کھا جاتی ہیں ؛حالانکہ ان سے سفرکرنے والا ہر آدمی بھاری کرایہ ادا کرتاہے ۔ ان اداروں کی مینجمنٹ نجی شعبے کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے جو اسے منافع بخش بنا کر دکھائے۔ وفاقی حکومت کو زیادہ تر حصہ اپنا پاس رکھنا چاہئے ۔ اسے صارفین کے تحفظ کا خیال رکھتے ہوئے رہنما اصولوں پر عمل درآمد تک خود کو محدود کرلینا چاہیے اور بس۔ سیاسی اثر ور سوخ کی موجودگی میں سرکاری کارپوریشنیں چلانا اس کے بس کی بات نہیں ۔
فی الحال ہدف سندھ میںحکومتی لٹیرے ہدف تھے ۔ بھارت سے وصولی کے انکشافات کے ساتھ ہی حالات کا جبر اب ایم کیو ایم کو پیس رہا ہے ۔ جس نے غلطی کی اسے اب قوم سے معافی مانگناہوگی ۔ عسکریت پسندسے توبہ کے بعد نئی قیادت سیاسی میدان میں اسے زندہ رکھنے کی کوشش کر سکتی ہے ۔ یہ بھی میں بتادوں کہ ایسا ہوگا ہرگز نہیں اور انجام بربادی ہے ۔ ایک بار پھر میں دہراتاہوں کہ دیر پا(Long Term)سیاست میں اب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے بچ نکلنے کا سوال ہی نہیں ۔ انہیں تحلیل ہوجانا ہے ۔ سوائے اس کے کہ اپنے اندر وہ جوہری تبدیلیاں لائیں ۔ ایک بار پھر میں دہراتا ہوں : ایسا ہوگا نہیں اور انجام برباد ی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگلے پانچ سے دس برس کے دوران کراچی میں ایم کیو ایم اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی جگہ کون لے گا۔ تحریکِ انصاف کوتو خود اپنے اندر ایٹمی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ الحمد للہ خان صاحب پر عزم ہیں کہ وہ ایسا نہیںہونے دیں گے ۔ وہ شاہ محمودجیسے لیڈروں کے ہمراہ ہی دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور خوابوں پر کوئی پابندی نہیں۔ جہاں تک نون لیگ کا سوال ہے تو سندھ میں اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے ۔ اس صورت میں قوم پرست جماعتیں یا نئی سیاسی قوتیں شاید اس خلا کو پر کریں ۔
ملک کو ایک چارٹر آف معیشت چاہیے ۔ ہر شخص، خواہ وہ میں ہوں یا جنرل کیانی کے بھائی، جنرل اسد درّانی یا کوئی پاٹے خان، ہمیں ہر کسی کی آمدن اور اس کے دولت کا شمار کرنا ہے ۔ہمیں ٹیکس چوروں کا گلا پکڑنا ہے ۔ اس طرح جو پاک ہیں وہ خبیث سے الگ ہوجائیں گے ۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستانی میڈیا اور حکومت بھارت سے ہر قیمت پر دوستی کا راگ الاپنے والوں اور بار بار بھارت کے دورے کرنے والوںکے مالی ذرائع کی جانچ پڑتال کریں ۔مالی تفتیش کا آغاز مجھ سے اور میرے والد سے ہونا چاہئے ۔
وقت آگیا ہے کہ بار بار پاکستانی سیاست کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے والے لیڈر ڈاکٹر طاہر القادری کے ذرائع آمدن کی تحقیقات کی جائیں ۔"سیاست نہیں ریاست بچائوـ"کے موقعے پر ایک بڑی تشہیری مہم چلائی گئی۔
برسبیلِ تذکرہ لند ن میں طاہرالقادری اور عمران خان کی ایک ہی وقت موجودگی اتفاق نہیں تھی۔ 11مئی 2014ء کو اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور راولپنڈی میں علامہ طاہر القادری کااحتجاجی مظاہرہ اتفاق نہیں تھا۔ اسلام آباد کے دھرنے کے دوران علّامہ کا سائونڈ سسٹم خراب ہونا اور عمران خان کاانہیں اپنے کنٹینر پر لے جانا اتفاق نہیں تھا۔ ہوسکتاہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جلد منظرِ عام پر آنے کے پسِ منظر میں عمران خان طاہرالقادری کے ساتھ مل کر کسی نئے منصوبے پر کام کررہے ہوں۔ ان کے ساتھ اتحاد تحریکِ انصاف کی بدترین غلطیوں میں سے ایک تھی۔ قرائن بتاتے ہیں کہ یہ اتحاد قائم و دائم ہے ۔ اب کی بار یہ تماشہ چلنے کا نہیں ۔ ماڈل ٹائون کے مقتولوں کا قصاص اپنی جگہ ، حکومتِ پاکستان کو ڈاکٹر صاحب سے اسی طرح پیش آنا چاہیے ، جیسا کہ ایک پاکستانی شہری اگر کینیڈا میں عدم استحکام کا مرتکب ہو تو کینیڈین حکام جس انداز سے بروئے کار آئیں گے ۔
لندن اور بالخصوص دبئی سے ہمارے ''مہربان ‘‘کچھ دن سستا کے واپس آجائیں گے۔ سندھ میں گھوسٹ ملازمین اور ان میں تنخواہیں بانٹنے والے پکڑے جا رہے ہیں ۔پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ ہے ۔ تشدد اور مالی جرائم کے خلا ف بھرپور قوّت سے اقدام یا پھر دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار پھینک دینا۔ حرفِ آخر یہ کہ سیاست کے بادشاہ اور دوسروں کو انگلیوں پر نچانے والوں کے خلاف بھی ثبوت و شواہد کافی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں