دو بار اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سمجھدار دوستوں نے مجھ سے یہ پوچھا: کیا آدمی واقعی چاند پہ اتر چکا ہے یا انسانیت کے ساتھ یہ ایک دھوکہ تھا۔ میں نے کہا: چاند بہت قریب ہے۔ ''ہوئی گنز‘‘ (Huygens) کے نام سے آدمی کی بنائی ہوئی مشینی گاڑی سورج کے بیرونی مدار میں زحل کے چاند ٹائٹن پہ اتر چکی ہے۔ 1969ء سے 1972ء کے دوران امریکی ایجنسی ناسا نے کئی خلائی جہاز چاند پر روانہ کیے۔ ان کے ذریعے 380 کلوگرام چٹانیں زمین پر لائی گئیں۔ ان کے جائزے سے انکشاف ہوا کہ زمین اور چاند کی عمر ایک ہی جتنی یعنی 4.6 ارب سال ہے۔ 2004ء کے بعد سے امریکہ، جاپان، چین، انڈیا اور یورپی خلائی ایجنسی‘ چاند کے گرد گردش کرنے والے کئی مشن بھیج چکے ہیں۔ امریکہ، روس اور یورپ کے بعد اب بھارت بھی مریخ کی جانب راکٹ روانہ کر چکا ہے۔ اگست 2012ء سے سینکڑوں ارب روپے کی لاگت سے ناسا کا بھیجا ہوا روبوٹ کیوریاسیٹی (Curiosity) مریخ پر چہل قدمی کر رہا ہے‘ جو چاند کی نسبت بہت دور واقع ہے۔ 2010ء میں جاپان کا ایک خصوصی خلائی مشن ''ہایا بوسا‘‘ کرّہء ارض کے قریب سے گزرتی ہوئی ایک چٹان پہ اترا۔ اپنے مشینی پنجوں سے اس نے جانچ پڑتال کے لیے مواد اکٹھا کیا اور زمین پر لوٹ آیا۔ یہ مشن سات سال کے دورانیے پہ مشتمل تھا۔ سائنسدانوں کے نزدیک یہ ایک اڑتی ہوئی گولی (Bullet) کو دوسری گولی کے ذریعے نشانہ بنانے کے مترادف تھا۔ اور تو اور، انسان کی بھیجی ہوئی مشین اب ساڑھے سات ارب میل دور واقع پلوٹو کا جائزہ لیتے ہوئے، زمین تک ڈیٹا بھیج رہی ہے۔ ان حقائق کو دیکھتے ہوئے، چاند تک رسائی پہ شک ایسے ہی ہے، جیسے مرسڈیز میں سفر کرتا ہوا انسان پہیے یا انجن کی ایجاد پر سوال اٹھائے۔
تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل، مشہور یونانی مفکّر ارسطو نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ زمین ایک سیدھی سطح (Flat) نہیں بلکہ گول ہے گو کہ اپنے ننھے قدّوقامت کی بنا پر ہمیں یہ سیدھی ہی دکھائی دیتی ہے۔ جن دو وجوہ کی بنیاد پر اس نے یہ اندازہ لگایا، ان میں سے ایک بڑی دلچسپ ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ چاند گرہن کے دوران دراصل زمین کا سایہ چاند پہ پڑتا ہے... اور یہ سایہ ہمیشہ گول ہوتا ہے۔ ارسطو کے دوسرے بہت سے نظریات ناقص تھے۔ مثلاً یہ کہ زمین ساکن اور کائنات کا محور و مرکز ہے لیکن فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں۔
چاند تقریباً ایک ماہ میں کرّہء ارض کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہے اور اتنی ہی دیر میں خود اپنے گرد بھی۔ اسی وجہ سے ہم اس کا محض ایک رخ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ ہماری زمین اپنے گرد صرف ایک دن،
جب کہ سورج کے گرد ایک سال میں چکر مکمل کرتی ہے۔ نظامِ شمسی کے کسی بھی سیارے کے حجم کا موازنہ اگر اس کے چاند کے حجم سے کیا جائے تو اس لحاظ سے ہمارا چاند سب سے بڑا ہے۔ اس کے ساتھ بہت سے عجیب حقائق منسلک ہیں۔ زمین سے اس کا فاصلہ بہت کم ہے۔ یہ فاصلہ عین اتنا ہے کہ ہمیں وہ تقریباً سورج کے برابر ہی دکھائی دیتا ہے۔ اسی بنیاد پر مکمل سورج گرہن کے دوران وہ سورج کو پوری طرح ڈھانپ لیتا ہے۔ وکی پیڈیا پر یہ لکھا ہے: یہ فاصلہ، جس کی بنا پر سورج اور چاند ہمیں ایک ہی جتنے دکھائی دیتے ہیں، ایک اتفاق ہے لیکن میرے نزدیک یہ ایک عظیم معمار کی جمالیاتی حس کا مظہر ہے۔ اس قدر قریب اتنے بڑے چاند کی موجودگی زمین کا مدار مستحکم رکھتی ہے۔ چاند اس مخصوص زاویے کو مستحکم رکھتا ہے، جس سے زمین اپنے محور پر جھکی ہوئی ہے۔ سادہ الفاظ میں زمین پر موزوں درجہء حرارت اور موسموں میں چاند اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خدا کی بے شمار نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ زمین پر زندگی کا لازمی جزو ہے۔
چاند کیوں گھٹتا اور بڑھتا ہے اور قمری مہینے کی پہلی تاریخ میں وہ اس قدر ادھورا کیوں دکھائی دیتا ہے؟ یہ ہے وہ سوال، سال میں ایک بار، عیدالفطر کے موقع پر جو پاکستانی قوم کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ زمین کا سایہ ہے، جو چاند کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کرتا چلا جاتا ہے لیکن یہ تصور بالکل غلط ہے۔
کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ روشنی اسے چھو کر پلٹے اور ہماری آنکھ میں داخل ہو؛ لہٰذا زمین اور چاند کا رخ اور زاویہ ایسا ہونا چاہیے کہ سورج کی شعاعیں چاند کو چھو لینے کے بعد کرّہء ارض کا رخ کر سکیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح زمین کے جس حصے پر سورج کی روشنی پڑتی وہاں دن اور دوسری طرف رات ہوتی ہے، اسی طرح چاند کی بھی ایک طرف روشن اور دوسری تاریک ہوتی ہے۔ دورانِ گردش بعض اوقات سورج، زمین اور چاند ایک سیدھ میں آ جاتے ہیں۔ دائیں جانب سورج، پھر زمین اور بالکل بائیں جانب چاند۔ اس صورت میں چاند کی ایک طرف مکمل طور پر روشن اور زمین سے دیکھے جانے کے قابل ہو گی۔ یہ چودھویں کا چاند ہے۔ بعض اوقات اس پوزیشن میں زمین کا سایہ چاند پہ پڑنے لگتا ہے اور چاند گرہن واقع ہو جاتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک بار پھر سورج، چاند اور زمین ایک سیدھ میں ہوں لیکن اب دائیں جانب سورج، درمیان میں چاند اور بائیں جانب زمین واقع ہے۔ حسبِ معمول چاندکا ایک حصہ روشنی سے نہا رہا ہے لیکن ہماری طرف اس کا تاریک حصہ ہے۔ اس صورت میں ہم طاقتور ترین دوربینوں کی مدد سے بھی اسے دیکھ نہیں سکتے (پوپلزئی صاحب البتہ اس معاملے میں ایک استثنیٰ ہیں) یہ وہ وقت ہے، جب قمری مہینے کے اختتام پر گھٹتے گھٹتے چاند آخر غائب ہو جاتا ہے۔ اس کے اگلے روز زاویے میں معمولی سا فرق رونما ہوتا ہے۔ چاند ہمیں ہلال کی صورت میں آسمان پہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے، جب نئے ماہ کا آغاز اور عید کا اعلان ہوتا ہے۔
عید کا چاند تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ میں سے ایک یہ ہے کہ مذہبی طور پر حجازِ پاک سے عقیدت کے باعث لوگ اس کے ساتھ عید منانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی کہ مطلع ابر آلود ہونے یا آندھی طوفان کے باعث ننھے سے ہلال کو دیکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ ہماری بصارت محدود اور کمزور ہے۔ میری دانست میں علمائے کرام کو دوربینیں لے کر چھت پہ چڑھنے کی بجائے اس سلسلے میں شرعی احکامات کی گائیڈلائن دینے کے بعد یہ کام ماہرینِ فلکیات پہ چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ اس تنازعے کا واحد قابلِ عمل حل ہے۔