سیاسی صورتِ حال بظاہر بہت ابتر اور پیچیدہ ہے لیکن یہی عجیب و غریب سیٹ اپ اس وقت ہمارے مفاد میں ہے ۔ کم از کم اس وقت تک ، جب تک سیاسی قیادت ایک کم از کم اخلاقی ساکھ حاصل نہیں کر لیتی ۔
خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق اور جہانگیر ترین کے حلقوں میں الیکشن ٹربیونلز کے فیصلے پہلے آجاتے تو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ؟ جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف نے دھاندلی سے متعلق اپنا مقدمہ بڑے بودے انداز میں پیش کیا۔ اسے اصرار کرنا چاہیے تھا کہ جوڈیشل کمیشن کا دائرۂ کار فریقین سے دھاندلی کے ثبوت مانگنے سے بڑھ کر از خود تحقیقات تک محیط ہے۔ الیکشن کمیشن کے صوبائی ممبران کی طرف سے مستعفی ہونے پر غور و خوض جاری ہے ۔ ایسا ہوا تو نون لیگ کا مینڈیٹ مزید کمزور ہو جائے گا۔اس بارے میں جسٹس ریاض کیانی کا بیان انتہائی دلچسپ تھا۔ ایک سوا ل کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں محسوس ہوا کہ ان کی بے عزتی ہو رہی ہے تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی عملے کی اس قدر شاندار تربیت کی گئی کہ لاہور کے اہم ترین حلقوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی جیت کالعدم قرار پائی اور وہاں دوبارہ الیکشن کا حکم ہوا۔ ہزاروں تھیلوں سے فارم پندرہ برآمد نہ ہو سکے ۔ مقناطیسی سیاہی غیر معیاری نکلنے کے بعد ہر حلقے میں پچاس پچاس ہزا رووٹ قابلِ تصدیق ہی نہیں ۔ اس سب کے بعد بھی وہ مستعفی نہیں ہو رہے۔
30اکتوبر 2011ء کے جلسے سے تحریکِ انصاف کی صور ت میں ایک نئی پارٹی نہ ابھرتی تو نون لیگ کا ہر دن عید، ہر رات شب برات ہوتی ۔ پی ٹی آئی کے پیدا کر دہ دبائو کے نتیجے میں اقتدار کا مزا کرکرا ہوگیاہے ۔ ہر وقت ایک چیلنج درپیش ہے ۔ پہلے جیسی من مانی ممکن نہیں ۔ اسی دبائو کے نتیجے میں عسکری قیادت کی پشت پناہی درکار ہے ۔ اسی کے نتیجے میں مشاہد اللہ کا استعفیٰ لینا پڑا ۔ اسی لیے سندھ میں فوجی قیادت کی طرف سے مجرموں کے ساتھ ساتھ ان کے پشت پناہوں کے خلاف کارروائی ، ڈاکٹر عاصم تک کی گرفتاری پر خاموشی اختیار کرنا پڑی ہے ۔ اس اندیشے کے باوجود کہ پنجاب میں فسادیوں کے سیاسی پشت پناہ اگلا ہدف ہوں گے ۔
تحریکِ انصاف کی صورتِ حال اور بھی دلچسپ ہے ۔ این اے 122سے عبد العلیم خان امیدوارہیں ۔ پی ٹی آئی الیکشن ٹربیونل کے سابق سربراہ جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق کنٹونمنٹ الیکشن میں لاہور سے پارٹی ٹکٹ انہوں نے بیچ دیے تھے ، نتیجتاً لاہور میں تحریکِ انصاف خالی ہاتھ رہی ۔ جسٹس وجیہہ الدین احمد نے عبد العلیم خان ، جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ چند ماہ پہلے خود عمران خاں نے اعلان کیا تھا کہ لاہور میں ایک نہیں ، پانچ تحاریکِ انصاف پائی جاتی ہیں ۔ عبد العلیم خان انہی میں سے ایک کے سربرا ہ ہیں ۔صورتِ حال اس وقت اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے ، جب کپتان خود علیم خان اور جہانگیر ترین کے فضائل پہ روشنی ڈالتاہے ۔ ہفتے کے روز عمران خان جہانگیر ترین ہی کے جہاز میں عازمِ لاہور ہوئے تھے ۔پختون خوا میں پرویز خٹک ، وزیرِ مال علی امین گنڈا پور ، وزیرِ قانون امتیاز قریشی سمیت صوبائی وزرااور اعلیٰ عہدیدار اپنے اپنے بھائیوں اور رشتے داروں کو بلدیاتی انتخابات میں نواز چکے ہیں ۔ اس سے قبل خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی پرویز خٹک نے اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس ساری صورتِ حال میں پی ٹی آئی نون لیگ کو دبائو کا شکار تو رکھ سکتی ہے لیکن کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہے ، الّا یہ کہ حالات کا دھارا اس کے حق میں ہو ۔ محض عمران خان کی ذاتی ساکھ کے بل پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے نہیں جا سکتے ۔ ہر حلقے کی اپنی مخصوص صورتِ حال کو سمجھے بغیر، مقبول اور معقول امیدوار کے انتخاب اور الیکشن کے درست انتظامات کے بغیر جیت ایک خواب ہی رہے گی ۔
ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق اور جہانگیر ترین کے حلقوں میں ہونے والا انتخاب پی ٹی آئی اور نون لیگ کے درمیان جاری کشمکش میں ایک بڑا فیصلہ کن باب ثابت ہوسکتاہے ۔ وہ مستقبل کی سیاسی صورتِ حال پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ تحریکِ انصاف فتح حاصل کر کے لیگی مینڈیٹ کو مزید مشکوک ثابت کر سکتی ہے ۔ بصورتِ دیگر میڈیا اور سیاست کے کوچہ و بازار میں کپتان کا مضحکہ اڑے گا۔پارٹی کارکنوں کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔
اس صورتِ حال میں عسکری قیادت کا کردار بہت بڑھ جاتاہے ۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد وسط مدتی انتخاب کا تو کوئی امکان نہیں ۔ یہی سیٹ اپ برقرا ررہے گا، جس میں امریکہ ، افغانستان ، بھارت ، کشمیر اور دہشت گردی سے متعلق پالیسی فوج کے ہاتھ میں ہو۔ عسکریت پسندوں اورسیاسی پارٹیوں کے مسلّح گروہوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ بھارت کو وہ منہ توڑ جواب دیتی رہے گی ۔ فی الحال یہی ہمارے لیے موزوں ہے ۔ وزیرِ اعظم نواز شریف تو شمالی وزیرستان آپریشن کے ہنگام مشرقی محاذ گرم کرنے والے نریندر مودی کو ساڑھیاں اور مٹھائی بھیجتے پائے گئے ہیں ۔ یہ بہرحال خواب و خیال کی بات ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ کر سکتاہے ۔ گزری دہائیوں میں جوہری اور میزائل پروگرام میں اس قسم کی پیش رفت ہوئی ہے کہ منٹوں کے اند ردونوں اطراف کے بڑے شہر تباہ ہو جائیں گے ۔ بھارت تنگ کر سکتاہے ،وہ سازش کر سکتاہے ۔ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں ، افغانستان کے راستے بلوچستان میں خرابی کی کوشش ، ہربیار مری اور براہمداغ بگٹی جیسے کارندوں کے ذریعے فساد وہ پہلے بھی برپا کرتارہا ہے ، آئندہ بھی یہ کوششیں جاری رہیں گی ۔ دشمن کو اسی کے سکّوںمیں ادائیگی کرنی چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ سفارتی اور عالمی میڈیا کے محاذ پر اپنا مقدمہ بھرپور اندا زمیں پیش کرنا ہوگا۔
بظاہر موجودہ ملکی سیاست اونٹ کی مانند ہے ، جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ۔ دوسری طرف گہرائی میں غور کیا جائے تو یہی سیٹ اپ ہمارے مفاد میں ہے ، جس میں نون لیگ پر تحریکِ انصاف کا دبائو، پی ٹی آئی پر داخلی دھڑے بندیوں او رغلط فیصلوں کے نتیجے میں ناکامیوں کا بوجھ ، نتیجتاً افغانستان ، امریکہ ، بھارت ، کشمیر اور دہشت گردی سے متعلق تمام معاملات فوج کے ہاتھ میں ہیں ۔ یہ صورتِ حال اس وقت تک برقرار رہنی چاہیے ، جب تک سیاسی قیادت کم از کم ساکھ اور وہ بالغ نظری حاصل نہیں کر لیتی ، جو ملکی مفاد میں درست فیصلوں کے لیے درکار ہے ۔