"FBC" (space) message & send to 7575

بخشش

گو کہ میں جانکنی کے عالم میں تھا لیکن یہ جو ابھی میں نے ہچکی لی، اس کا سبب میرے رگ و پے میں دوڑتی ہوئی مے تھی۔ جی ہاں، مجھے موت اچکنے کو تھی اور میں۔۔۔۔ نشے میں میرا دماغ ڈول رہا تھا۔ یہ بڑی بے آبروئی کی موت ہوتی لیکن بہرحال گزرے برسوں میں اپنے ناکارہ ہوتے گردوں کے ساتھ ذہنی طور پر میں اس کے لیے تیار تھا۔ میرے حریص رشتے داروں کی نگاہوں میں بظاہر رحم ، درحقیقت ہوس ناچ رہی تھی ۔ 
میرے نیم مردہ وجود میں بچی کھچی زندگی کانپ رہی تھی ۔ گناہ گاروں کی موت تکلیف دہ تو ہوتی ہی ہے۔ طویل اذیت ناک ساعتوں کے بعد، وہ میری روح گھسیٹ لائے۔۔۔۔۔ اور یہاں سے ایک عجیب قصے کی ابتدا ہوئی۔ میں اپنے بدن کے باہر کھڑا تھا لیکن میری آنکھوں کے سامنے مٹی کا وہ جسم بدستور لرز رہا تھا۔ ایک روح ہونے کے باوجود، جسے جسمانی کمزوریوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، میں سخت تکلیف محسوس کر رہا تھا۔ 
میرے حواس قائم ہونے سے قبل ہی ایک سفید پوش و سفید ریش نے میرا ہاتھ پکڑا۔ جب یکے بعد دیگرے ہم آسمانوں سے گزرتے چلے جا رہے تھے، اس نے یہ کہا: جمال مصطفی ، بطور ایک مقرب فرشتے اور ایک غیر جانبدار منصف کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ تو ایسا بھی قصور وار نہیں ۔ خدائے بزرگ و برتر کے دربار میں، میں تیرا مقدمہ لڑنے کی کوشش کروں گا۔ ''ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ میں نے اس مقدس وجود کو عقیدت سے دیکھا۔
چہار سو ملائکہ تھے، محو ِحمد ۔اس نے کہا: ''یہ جو سامنے نور کی چادر تنی ہے، وہاں خدا بذاتِ خود تشریف فرما ہے۔ اس طرف نہ دیکھنا ، مبادا تو اندھا ہو جائے۔ وہی سب سے بڑا جج ہے اور اسی کے حضور مجھے تیری صفائی پیش کرنا ہے۔ اسے آخری موقع سمجھ اور خاموش کھڑا رہ‘‘۔ میرے سینے میں سخت تکلیف ہو رہی تھی ۔ بہرکیف، چپ چاپ میں کٹہرے میں کھڑا ہوگیا اور یا للعجب، میرے اس مہربان نے دلائل کے انبار لگا دیے۔ اس نے کہا: جمال مصطفی کے والدین گمراہ تھے۔ ابھی یہ کم سنی میں تھا کہ ان دونوں نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کی۔ اسے رشتے داروں نے پالا۔ اس دوران اسے واجبی سی ہی دینی و دنیاوی تعلیم مل سکی۔ نیکی کا شعور اس میں پیدا ہی نہ ہو سکا۔ والدین کی ناگہانی موت کے بعد عین شباب کے عالم میں وہ صاحبِ جائیداد بنا اور یوں بگڑتا چلا گیا۔ 
تکلیف ناقابلِ برداشت ہوتی چلی جا رہی تھی لیکن میںسکتے کے عالم میں سنتا رہا۔ خدائے بزرگ و برتر نے کہا: ''یہ فواحش و منکرات سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ ایک بار بھی میری طرف پلٹنے کی اس نے جستجو نہ کی‘‘۔ ''خداوندِ تعالیٰ‘‘ فرشتہ گویا ہوا ''اس میں اس سے زیادہ اس کی جسمانی و ذہنی ساخت قصور وار ہے۔ تیری ہی پیدا کردہ کشش کے تحت حسین چہرے اسے اپنی طرف کھینچتے تھے۔ جب جب یہ امّ الخبائث چکھتا، اس کے دماغ میں مخصوص کیمیکل خارج ہوتے۔ یوں یہ لطف اندوز نشے کا عادی ہوتا چلا گیا۔ اس میں اس سے زیادہ ان حالات کا قصور ہے، جس میں اسے زندگی گزارنا پڑی۔ والدین اس کو نہ مل سکے، تربیت اس کی ہو نہ سکی۔ دوست احباب اسے بدکار ملے۔ ان تمام حالات کے پیشِ نظر عدالت سے درخواست کی جاتی ہے کہ جمال مصطفی کومعاف کر دیاجائے‘‘۔
''ٹھیک ہے ‘‘خدا نے فرمایا ''اسے بخش دیا جائے گا۔ اس کا تحریری بیان جمع کرایا جائے‘‘ ۔ پلک جھپکنے میں تحریر میرے سامنے پیش کر دی گئی ۔ اس پر مجھے انگوٹھے کا نشان ثبت کرنا تھا۔ اس کے بعد میں بخش دیا جاتا۔ اس اثنا میں تکلیف کی شدّت سے مجھے اپنا سینہ پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ شروع ہی سے اس سارے قصے میں مجھے گڑبڑ محسوس ہو رہی تھی۔ اپنے ہمدرد سے میں نے یہ کہا: ''کیوں نہ میں معافی مانگ لوں ؟ ‘‘۔ ''نہیں ، نہیں، معافی نہ مانگنا‘‘ اس نے گھبرا کر کہا ''ہمارا کیس بہت مضبوط ہے‘‘۔
اس کے بعد شک کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی ۔ میرے ساتھ ایک کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ یہ آخری اور فیصلہ کن لمحات تھے ۔ میں نے یہ کہا:''میں انسان ہوں ، انسان ۔ ایک سیاہ کار انسان ، جس نے اپنی زندگی گناہ کی نذر کر دی ۔ پھر بھی ، میں انسان ہوں ،شیطان نہیں کہ خدائے بزرگ و برتر کے حضور جواز تراشنا شروع کر دوں ۔ یہ جسے تم نور کا حجاب کہہ رہے ہو، یہ نور نہیں خالص آگ ہے اور جو اس کے پیچھے خدا کا روپ دھارے بیٹھا ہے، وہ ابلیسِ لعین ہے۔ یہ جس دربار میں تم مجھے لے کے آئے ہو، یہاں سڑاند اٹھ رہی ہے۔ یہ جو ملائکہ کے روپ میں بظاہر حمد و ثنا بیان کر رہے ہیں، ان کی آنکھوں میں حسد اور استہزا ہے۔ بظاہر تم میری وکالت میں دلائل کے انبار لگا رہے ہو، اس کے باوجود تمہاری میٹھی آواز گاہے غرّاہٹ بن جاتی ہے‘‘ ۔
یہاں پہنچ کر میں نے دیکھا تو ایک ایک کر کے سارے''ملائکہ‘‘ غائب ہوتے چلے جا رہے تھے۔ دربار میں سنّاٹا طاری تھا اور میرے ہمدرد کے تاثرات بدل چکے تھے۔ ''نوری‘‘ حجاب کی تپش مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی۔ اس اثنا میں تکلیف کی لہر مجھے سینے سے گلے کی طرف آتی محسوس ہوئی۔
میں کٹہرے سے نکل کر براہِ راست ابلیس کے سامنے چلا گیا۔ میں نے اس سے یہ کہا: ''اسی طرح ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر تو نے میرے باپ آدمؑ کو جنت سے نکلوایا تھا۔ یہ کھیل اب بھی جاری ہے۔ مجھے تکلیف محسوس ہو رہی ہے۔ ابھی میں زندہ ہوں۔ بظاہر میری روح کو تو ساتویں آسمان پہ اغوا کر لایا ہے لیکن اس کا ایک پائوں اب بھی میرے مٹی کے جسم میں ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے میں نے اسے کانپتے دیکھا ہے۔ بھلا مردے بھی کبھی لرزتے ہیں؟ تو جہنم کے پروانے پر میرے دستخط لینے آیا ہے اور وہ بھی خدا کا روپ دھار کے؟ کہاں وہ سراپا نور اور کہاں تو بدبو اور گندگی سے بھرا ہوا‘‘۔تکلیف کی شدّت سے میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے کراہ کر یہ کہا: '' میں خود کو خداوندِ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں ۔ اگر تو وہ مجھے عذاب دے تو یہ اس کا انصاف اور اگر بخش دے تو یہ اس کا رحم و کرم‘‘۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ مکر و فریب کا وہ پورا نظام دھڑام سے گر پڑا۔ شیطان چیخیں مارتا بھاگا۔ ساتویں آسمان سے میری روح واپس جسم میں آگری۔ یہاں اب سکرات کا عالم تھا۔ اب کی بار حقیقی عزرائیلؑ میری روح قبض کرنے آئے اور کمال نرمی و مہربانی کے ساتھ انہوں نے یہ فریضہ انجام دیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں