کسی اور کی تحسین میرے سامنے ہو ، یہ بات میری برداشت سے باہر تھی ۔ ادھر صورتِ حال یہ تھی کہ ہر ملنے والا میری تو تعریف ہی کرتا مگر اس کا ایک پورا قصیدہ کہہ ڈالتا۔گویا کہ وہ ایک جیتا جاگتا دیو مالائی کردار تھا ۔ یہ کیسے اور کیونکر تھا، یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی۔زور آور تو میں تھا۔ میں نے ہی ہر نامی گرامی کو پست و پامال کیا تھا۔ اکھاڑے میں میری ہیبت ناک قوت سے حریف کانپنے لگتا۔ وہ ہارنے سے پہلے ہار جاتا ۔ روزانہ آٹھ گھنٹے میں کسرت کرتا۔کتنے ہی نئے دائو پیچ ذاتی طور پر میں نے فنِ پہلوانی میں متعارف کرائے تھے ۔ادھر وہ تھا کہ کبھی کسرت کرتے دیکھا گیا اور نہ کبھی کسی کو مقابلے کا پیغام بھیجا۔زمانے سے اپنی طاقت کا اعتراف کرانے والے آخر خود اس کی طرف جایاکرتے کہ اسے شکست دے کر خود کو رستمِ عالم قرار دلوائیں ۔ اپنی کامیابیوں کی داستان میں آخری اور فیصلہ کن ورق کا اضافہ کر سکیں لیکن ان میں سے ہر ایک خجل لوٹتا۔ اس پسِ منظر میں یہ واضح تھا کہ اس کے مقابل نہ اترنے کی صورت میں اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود آخر مجھے بزدل لکھا جائے گا۔
تو میں اس کے پاس گیا اور اسے چیلنج کیا۔ یہ کہاکہ میں اسے رسوا کر دوں گا۔ میری للکار اس نے بے نیازی کے عالم میں سنی اور سر ہلایا۔ گویا کہ میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا۔ اس کی خود اعتمادی کا عالم یہ تھا کہ فوراً اسی
وقت وہ میدان میں اترااور یہاں سے میری کم بختی کا آغاز ہوا۔ جیسے چاہا، اس نے مجھے پکڑا، گھسیٹا، اٹھایا اور پٹخ ڈالا۔ میرے تمام حربے بیکار ثابت ہوئے۔ اسے تو گویا پہلے سے معلوم تھا کہ کس وقت میں کون سا گر آزمائوں گا۔ وہ میرا ذہن پڑھ رہا تھا۔ میں دایاں بازو اٹھانے کی سوچتا تو اپنے بائیں ہاتھ سے وہ اس پر ضرب لگاتا ۔ درد کی شدّت سے میں چیخ اٹھتا۔ اپنی بے پناہ قوت اور کامیابیوں کے بل پر وجود پانے والا خمار اتر چکا تھا ۔ اب میں صرف با عزت پسپائی چاہتا تھا لیکن یہ میری ذلت کا دن تھا۔ آخر اسے رحم آیا اور آہستہ آہستہ وہ پیچھے ہٹا۔
پھر اس نے یہ عجیب کلمات کہے کہ کرّۂ ارض کا کوئی بھی آدم زاد کبھی کسی زمانے میں بھی اسے شکست دے سکا اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہوگا۔ اس نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے ہے ، ہمیشہ رہے گا۔ یہ بھی کہ ہمیشہ ہر انسان اس کے سامنے سرنگوں رہے گا۔ اس ساری بات سے صاف ظاہر تھا کہ بظاہر انسانی رنگ روپ کے باوجود خود کو وہ انسانوں سے جدا اور برتر مخلوق سمجھتا ہے ۔ ادھر میں بھی انہی خطوط پر سوچ رہا تھا۔ ایسی قوت انسانوں میں نہیں ہوتی ۔ وہ کوئی اور ہی مخلوق تھا۔پھر میں نے اس کے کلمات پر غور کیا "میں ہمیشہ سے ہوں اور ہمیشہ رہوں گا‘‘یہ بھی کہ کبھی کوئی بھی آدم زاد اسے شکست نہیں دے سکا ۔ تو کیا وہ انسان کا ازلی حریف تھا، ابلیسِ لعین؟
وہ گویا میرے دماغ میں جھانک رہا تھا اور اس خیال کو دیکھتے ہی ہنس پڑا۔ پھر اس نے یہ کہا"شیطان نہیں ، میں نفس ہوں ۔ میں کوئی عام نفس نہیں ، شیطان کا تربیت یافتہ نفس ہوں ۔ میں کروڑوں سال میں پختہ ہوجانے والی خواہشات کا مجموعہ ہوں ۔ میں غصہ ہوں ، میں نفرت ہوں ۔ میں حسد ہوں ۔میں خوف ہوں ۔ میں ہی انتقام ہوں ۔ آدم زاد کو میں اپنے فریب میں الجھا کر مار ڈالتا ہوں ۔ میں اس کے ر گ و پے میں دوڑتا ہوں ۔میں مال و دولت کی محبت میں اسے اندھا کر دیتا ہوں ۔ اس کی ساری زندگی رائیگاں کر ڈالتا ہوں ۔ میں مخالف جنس کی کشش کا محرک ہوں ۔ میں پرائی عورت پانے کی خواہش میں اسے رسوا کر ڈالتا ہوں ‘‘۔
اس وسیع و عریض میدان کے وسط میں ، جہاں زمین پہ پڑا میں کراہ رہا تھا، وہ میرے مقابل آبیٹھا ۔ مزے لے لے کر اس نے یہ کہا ''تجھے شکست دینے کے لیے مجھے کچھ بھی تونہیں کرنا پڑا۔ میں تیری سوچ سے واقف ہوں ، اسے پڑھ سکتا ہوں ۔ اچھی طرح میں جانتا ہوں ، تو کتنے پانی میں ہے ۔ تیری شکست مقدر تھی۔ ابتدا ہی سے میں نے تجھے اپنی قوت کے نشے میں اندھا کیے رکھا۔ مقابلے کے دوران میں نے تجھے غصہ دلایا، عقل کو خبط کر ڈالا۔پھرمجھے تو بھلا کیا شکست دیتا ۔ کیا تو نے اپنے سچّے پیغمبرؐ کی بات نہیں سنی ؟ مدّمقابل کو ہرانا آسان ہے ، غصے پہ قابو پانا مشکل ‘‘۔
''اس کے بعد‘‘اس نے ایک مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ''میں نے تجھ پہ خوف طاری کیا ۔ یوں تیرے سارے دائو پیچ کند ہو کر رہ گئے ‘‘۔اپنی اس تذلیل پر میں رونے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی سوچتا رہا کہ اسے شکست دینے کی کوئی تو سبیل ہوگی ۔ آج تک اپنے ہر حریف کو میں نے اس کی کمزوری ڈھونڈ کر شکست دی تھی۔ پھر اس خیال نے مجھے آزردہ کر دیا کہ جب وہ انسان ہی نہیں تو اسے شکست کیونکر دی جا سکتی ہے ۔ اپنی ناکامی کو میں نے قبول کیا۔اپنی کمزوری کا میں نے ادراک کیا۔ میں شرمسار ہوا۔ اس کے بعد اپنی قوّت کے بل پر پیدا ہونے والے تکبّر پر میں نے اپنے رب کے حضور معافی مانگی ۔
یہاں پہنچ کر میں نے اس کی طرف دیکھا توپہلی بار اس کے چہرے پر خوف کے آثار تھے ۔ اس کا چہرہ اب زرد تھا اور پلک چھپکائے بغیر وہ میدان کے داخلی راستے کو تک رہا تھا۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا تومبہوت ہو گیا۔ اس طرف سے جو خاتون ہماری طرف بڑھ رہی تھی، میں حلفیہ طور پر کہتا ہوں کہ ایسا حسن پہلے کبھی پوری زندگی میں نے نہیں دیکھا تھا۔ ایک ایک قدم وہ سوچ سمجھ کر اٹھا رہی تھی ۔ اس کی چال آخری حد تک باوقار تھی۔ اس وقت نفس کے چہرے پر موت کے آثار تھے ۔
آخر وہ میرے پاس آبیٹھی۔ اس نے میری حیرت کا جائزہ لیا۔ وہ شرما کر مسکرائی اور یہ کہا ''میں عقل ہوں۔ کوئی عام عقل نہیں بلکہ وہ ، جو خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہے ۔ جس نے مجھ سے مدد مانگی ، وہ اس بد بخت نفس کے شر سے بچ نکلا۔ ‘‘
میں نے نفس کی طرف دیکھا۔ اس کی بولتی مکمل طور پر بند تھی ۔