زلزلہ کھینچ کر دس برس پیچھے لے گیا۔ 8 اکتوبر 2005ء کو پنجاب کالج میں وہ میرا پہلا دن تھا، جب کشمیر ملیامیٹ ہوا تھا۔ آج در و دیوار اس سے بھی زیادہ شدّت سے اور دیر تک کانپتے رہے۔ ابتدا میں 73 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے‘ لیکن اصل صورتِ حال کا اندازہ چند گھنٹوں تک ہو گا۔ خدا خیر کرے۔
ایک کے بعد دوسری آفت دستک دیتی ہے۔ زلزلہ تو خیر ہم نہیں روک سکتے۔ تباہی سے نمٹنے کی تیاری کی جا سکتی ہے۔ سیلاب میں ڈوبنے کی بجائے اس پانی سے ہم مستفید ہو سکتے ہیں۔ دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پنجاب اور مرکز کے حکمران سولر لیمپ، دانش سکول، سستی روٹی اور میٹرو کے ذریعے نقد داد وصول کرنے کا جنون رکھتے ہیں۔ لیگی حکومت کے لیے دعا پیشِ خدمت ہے: ''اے اللہ میں برص، جنون، جذام اور سب بری بیماریوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔
ایک کے بعد دوسری آفت۔ سب سے بڑا فتنہ تو بھارت ہے۔ بھارت اور پاکستان کے دفاعی ساز و سامان اور جنگی تیاریوں کا موازنہ کرتے ہوئے ہمیں جنگی بخار میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے‘ لیکن کیا کیجیے کہ حقائق انتہائی خوفناک ہیں۔ اس قدر کہ خود بھارتی شہری، دانشور اور سیاستدانوں کا ایک طبقہ چیخ اٹھا ہے۔ پچھلے برس جون میں شروع ہونے والے شمالی وزیرستان آپریشن کے ساتھ ہی مشرقی سرحد پر محدود پیمانے کی جنگ جاری ہے۔ ایک خفیہ جنگ افغانستان میں ہو رہی ہے، جہاں جنرل اشفاق پرویز کیانی برسوں امریکیوں کو عقل کی یہ بات بتاتے رہے کہ پاکستان مخالف اہداف رکھنے والا بھارت افغان مسئلے میں اضافہ ہی کر سکتا ہے۔
حقائق بہت ہی خوفناک ہیں۔ وکی لیکس کے مطابق 2009ء سے 2011ء تک بھارت میں امریکی سفیر ٹم روئمر نے امریکی حکام سے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن پر تفصیل سے بات کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت اور افسانے کا ایک مجموعہ ہے (Mixture of myth and reality)۔ ٹم روئمر کے خیال میں 2008ء کے ممبئی حملوں کے بعد کولڈ سٹارٹ پر عمل درآمد نہ ہونا معنی خیز تھا۔ یوں یہ منصوبہ خواب و خیال اور بلند بانگ دعوے کرنے کے بھارتی مزاج کا آئینہ دار لگتا ہے کہ بھارتی فوج ایک بڑی جنگی حکمتِ عملی کے تحت بیک وقت مختلف محاذوں پر حملہ آور ہوتے ہوئے برق رفتاری سے پاکستان کی کمر توڑ کر رکھ دے‘ لیکن بہت سی باتیں حقیقت بھی ہیں۔ تیرہ لاکھ سے زائد بھارتی فوج کے مقابلے میں پاکستان کے پاس صرف ساڑھے چھ لاکھ کی نفری ہے۔ اس میں سے قریب دو لاکھ افغان سرحد پر بری طرح مصروف ہیں۔ سوات، قبائلی علاقے، بلوچستان اور کراچی، ہر کہیں ذمہ داری فوج پر ہے۔ ملک بھر میں انسدادِ دہشت گردی کی قیادت وہی کر رہی ہے۔ افغان ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس ایک لحاظ سے بھارت کی حلیف ہے۔ بھارت کے 45 سے 50 ارب ڈالر دفاعی بجٹ کے مقابلے میں افواجِ پاکستان کے پاس ہر برس محض سات ارب ڈالر ہوتے ہیں‘ لیکن ہر صورت اور ہر قیمت پر بھارت کے ساتھ بھرپور مقابلے کے لیے اسے تیار رہنا ہوتا ہے۔
کولڈ سٹارٹ خواہ کاغذوں تک ہی محدود ہو، مئی 2011ء میں پاکستانی سرحد کے قریب فوجی مشقوں 'وجے بھاوا‘ میں بھارتی فوج نے اپنا mobilization time ستائیس دن سے گھٹا کر صرف دو دن تک لانے کا ہدف حاصل کر لیا تھا۔ جولائی 2011ء میں بھارت نے سالڈ فیول ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائل ''پراہار‘‘ کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ 150 کلومیٹر کی رینج میں مار کرنے والے میزائل کا مقصد روایتی جنگ کی صورت میں پاکستان میں داخل ہونے والی بھارتی فوج کے لیے میدان صاف کرنا تھا۔ اس کے بعد 'سدرشن شکتی‘ کے نام سے بھارت نے دو دہائیوں میں اپنی سب سے بڑی جنگی مشقوں کا
آغاز کیا۔ اس سے قبل 2007ء سے 2009ء کے انتہائی مختصر وقت میں بھارتی دفاعی بجٹ 24 ارب ڈالر سے 40 ارب تک جا پہنچا تھا۔ انتہا پسند پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن بھار ت میں تو وہ وزیرِ اعظم بھی بن سکتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سبکدوش آرمی چیف وی جے سنگھ دائیں بازو کی پاکستان اور مسلم مخالف جذبات رکھنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر ہیں۔ تازہ کارنامہ ان کا نچلی دلت ذات کے لیے کتوں کی مثال کا استعمال ہے۔ اس پر بھارت بھر میں احتجاج ہوا اور وزیر موصوف کو وضاحت کرنا پڑی۔
یہ وہ صورتِ حال ہے، جس میں 2010ء میں پاکستانی عسکری قیادت نے تربیت کا سال منانے کا اعلان کیا۔ عزمِ نو 3 کے نام سے مجوزہ کولڈ سٹارٹ کے جواب میں جنگی تیاریاں کی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی 60 کلومیٹر کی مختصر حدود میں مار کرنے والے جوہری میزائل نصر کا تجربہ کیا گیا۔
یہ وہ صورتِ حال ہے، جس میں پاکستان چھوٹے جوہری ہتھیار تیار کرنے پر مجبور ہوا اور یہی وہ صورتِ حال ہے، جس میں شاہین تھری میزائل بنایا گیا۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر سے بات ہوئی تو اس کا کہنا یہ تھا: شاہین تھری 2750 نہیں، 3500 کلومیٹر تک کہیں بھی مار کر سکتا ہے۔ مشرق اور مغرب میں پاکستانی سرحد سے 3500 کلومیٹر کے دائرے میں کہیں بھی۔ بنیادی طور پر یہ وہ طاقتور میزائل ہے، جو خلا میں جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی پسِ منظر میں واشگاف الفاظ میں پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ چھوٹے جوہری ہتھیار بنا چکا ہے۔ انہیں مزید بہتر بنانے پر کام جاری ہے۔ دشمن کی دراندازی کی صورت میں چند کلومیٹر کے دائرے میں ہر شے جلا کر راکھ بنا دی جائے گی۔ یہ چھوٹے ایٹم بم ہیں، جو روایتی جنگ میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
''پاکستان چھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بنا چکا ہے اور بھارت اب جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتا‘‘ فوجی افسر نے کہا ''اسی لیے تو اس پر موت طاری ہے‘‘۔ قبائلی علاقے، سوات اور وزیرستان میں جنگ لڑنے والی پاکستانی فوج اب بے حد تربیت یافتہ ہے۔ جنگی مشقیں حقیقی جنگ کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔ یہاں امریکہ کے لیے مخمصہ یہ ہے کہ مشرق میں 3500 کلومیٹر تک مار کرنے والا میزائل مغرب میں 3200 کلومیٹر کی دوری پر واقع اسرائیل تک بھی جا سکتا ہے؛ اگرچہ پاکستان کو جنگ کا آغاز ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ عراق اور شام تباہ ہو چکے۔ ترکی کے ایک طرف پے در پے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتی روسی فضائیہ ہے اور دوسری طرف داعش۔ اصولاً مشرقِ وسطیٰ کی سُنجی گلیوں میں اسرائیل کو مرزا یار کی صورت مٹر گشت کرنا تھا‘ لیکن پاکستانی فوج نے اس کا مزہ کرکرا کر دیا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان چھوٹے جوہری ہتھیاروں اور دور تک مار کرنے والے میزائلوں سے دستبردار ہو جائے لیکن بقا کی جنگ لڑتی پاکستانی فوج ایسا ہونے نہیں دے گی۔