"FBC" (space) message & send to 7575

تماشے کا حصہ

وہاں بوڑھے برگد تلے وہ رو رہا تھا۔ فطری طور پر میں نرم مزاج، دل گداز ہوں ۔اور وہ تو میرے بچپن کا دوست تھا۔اس وقت تک میرا گمان یہ تھا کہ زمانے کی ٹھوکروں نے کسی حد تک اسے حقیقت پسند بنا دیا ہوگا۔پے درپے حادثے جس پر بیتے ہوں، بہرحال وہ خواب و خیال میں جینے کا متحمل نہیں ہوتا۔میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا او روہ سسکیاں لیتا ہوا میرے سینے سے آلگا۔ 
''خدا کو یہی منظور تھا‘‘ میں نے کہا ''اس کم عمری میں تمہارا فرزند چل بسا ۔ جس کمپنی میں تم نے سرمایہ لگایا تھا، وہ دیوالیہ ہوگئی ۔ ‘‘ ۔ '' میرا غم اس سے بڑھ کر ہے ‘‘ اس نے بلک کر کہا ''میں جاہلِ مطلق ہوں ۔ اپنی یہ کم علمی مجھے خون رلا رہی ہے ۔ ‘‘
مجھے دھچکا لگا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ابھی تک وہ اپنی خیالی دنیا میںزندگی بسر کر رہا ہے اور وہ بھی ایسے سانحے کے بعد؟ مجھے سکول کا زمانہ یا د آیا۔ ہاسٹل کے برآمدے میں ہم کھیل رہے ہوتے ۔ ادھر وہ اپنی بوسیدہ کتابوں پہ جھکا ہوتا، جو وہ دور دراز کے شہروں سے ڈھونڈ کر لایا کرتا۔ اس کا بس نہ چلتا کہ انہیں چومنا چاٹنا شروع کر دیتا۔ وہ ایک نئی اصطلاح سنتا اور پھرلائبریریاں چھان مارتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پڑھائی میں وہ غیر معمولی طور پر کامیاب تھا۔ بالکل برعکس، ہر استاد بالآخر اس کے نت نئے اور سمجھ نہ آنے والے سوالات سے تنگ آ جاتا۔ کئی بار تووہ کمرے سے نکال دیا جاتا۔
ناگواری چھپاتے ہوئے میں نے کہا'' کیسی جہالت؟ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہو‘‘ ۔ ''ہاں میں نے بہت کچھ پڑھ رکھا ہے مگر اپنی آنکھ سے کچھ دیکھ نہیں سکا۔ ‘‘ اس نے سسکی لے کر کہا''آج دو دہائیوں کے بعد مجھے ایسا لگتاہے کہ میں سنی سنائی بات پہ یقین کرتا رہا ہوں ۔ میں نے کرّ ہ ء ارض کو گردش کرتے نہیں دیکھااور نہ ہی حتمی طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم ایک گول زمین پر کھڑے ہیں ۔ میں کششِ ثقل کو محسوس کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
میں افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ بڑے صدموں سے نمٹنے کے لیے بڑی ہمّت کے ساتھ ایک دیر پا لائحہ ء عمل ترتیب دینا ہوتاہے ۔یہ وہ وقت تھا، جب اسے اپنی مکمل برباد زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا تھا۔ وہ تنگدستی کا شکار تھا،اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ میں نے یہ بھی سنا تھا کہ اس کی بیوی کو خون کا کینسر ہے ۔ میں نے جیب سے کچھ نوٹ نکالے۔'' مجھے کاربن نہیں چاہیے ‘‘ اس نے کہا۔ اس کی اصطلاحات میں خوب سمجھتا تھا۔ اس کے بقول نوٹ کاغذ سے اور کاغذ لکڑی سے بنتے ہیں ۔ ان درختوں کی تشکیل کاربن کے عنصر سے ہوئی ہے ؛لہٰذا وہ کرنسی نوٹوں کو کاربن کہا کرتا ۔ 
''تمہیں نئے سرے سے اپنی زندگی ترتیب دینا ہے ‘‘ میں نے کہا۔''میں اس زمانے میں لوٹنا چاہتا ہوں ، جب یہ کائنات دھواں تھی‘‘ اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا''جب پہلے بڑے سورج بنے ،اوّلین عناصر تخلیق ہوئے ۔ میں کاربن کی آخری شکل (کرنسی نوٹ ) کی بجائے اس کی اوّلین شکل دیکھنا چاہتا ہوں ۔ پہلے پہل، جب وہ سورجوں کے مرکز میں تشکیل پا رہا تھا۔ میں یہاں اس نیلے سیارے پر لوہے کی بارش دیکھنا چاہتا ہوں ۔ میں فنا ہوجانے والے دو سورجوں کو آپس میں ٹکراتے دیکھنا چاہتا ہوں ۔کائنات میں سونے کی ترسیل کا جائزہ لینا چاہتا ہوں ‘‘
''ہم دوست مل کر بھابھی کا علاج کرائیں گے ۔ وہ ٹھیک ہو جائیں گی ‘‘ میں نے کہا۔ ''کیا پہاڑ واقعی زمین کے اندر گہرائی تک گڑے ہوتے ہیں ؟ ‘‘ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا ''کاش میں خلا میں جا سکتا۔بلندی سے آنکھ بھر کے اس کرّ ہ ء خاک کو سورج کے گرد محوِ رقص دیکھتا ۔ اس نیلے دائرے کا جمال میری بینائی کو چوم لیتا۔ ‘‘
میں بھنا کر یہ سوچنے لگا کہ خلا سے اگر وہ سیدھا اس نیلے دائرے کی بھوری ز مین پر گر کر مرجاتا تواسے بھی نجات نصیب ہوتی تو ہمیں بھی ۔ خاموش میں اس لیے رہا کہ اگر میں یہ کہہ ڈالتا تو وہ خلا میں کششِ ثقل کی عدم موجودگی کے نتیجے میں زمین پر آگرنے کا خدشہ فوراً مسترد کر دیتا۔خلا میں مادے پر جنم لینے والے اثرات پر لیکچر مجھے الگ سننا پڑتا۔ 
وہ ہذیان بکتا رہا''میں نے کبھی رگوں میں خون گردش کرتے نہیں دیکھا ، کبھی دل کے عضلات اچھلتے نہیں دیکھے ۔ جسم اور دماغ کے درمیان پیغامات کی ترسیل کا مشاہدہ میں نہیں کرسکا۔ خدا جانے سورج نے آٹھ سیارے کیونکر اپنے گرد باندھ رکھے ہیں ۔ یہ کہکشاں دیکھنے میں کیسی لگتی ہے ، مطلق مجھے اس کی خبر نہیں ۔ سورج کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے ،یہ بات تو سمجھ آتی ہے لیکن ستاروں کا یہ شہرکس رخ چل رہا ہے ؟کیا یہ دائرے کا سفر ہے ؟ ‘‘ 
'' مستقبل کے بارے میں تم نے کیا سوچا ہے ؟ ‘‘ میں نے پوچھا ۔ میری مراد یہ تھی کہ کمپنی دیوالیہ ہو نے کے بعد اب وہ اپنے اخراجات کس طرح پورے کرے گا۔ ''مستقبل کا مجھے کوئی علم نہیں ‘‘ اس نے کہا ''اینٹی میٹر قابو میں آجائے تو سفر سمٹ سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ایک سورج سے اپنے طیارے کو توانائی فراہم کر کے دوسرے تک کا سفر طے کر سکیں ۔ ہو سکتاہے کہ ستاروں کے درمیان توانائی کی ایک شاہراہ تعمیرکی جا سکے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم مادے کو توانائی میں تبدیل کرکے لہروں کی شکل میں اسے دور دراز کے مقامات پر روشنی کی رفتار سے منتقل کر سکیں ۔ اگر ایسا کبھی ممکن ہوا تو کائنات سمٹ جائے گی ۔ ‘‘
یہاں مجھے معلوم ہو اکہ وہ توازن او راعتدال کھو چکا تھا ۔ اب لوٹ جانا ہی بہتر تھا۔ اگر وہ اپنے ہو ش میں ہوتا تو پہلے اپنی حالتِ زار بہتر بناتا ۔خالی پیٹ کیسی تحقیق ، کہاں کی تسخیر؟ یہ بات اسے سمجھانا ممکن نہ تھی ۔ وہ بچپن سے حیرتوں کا سفر کرتا آرہا تھا۔اس دوران اس کا دماغ الٹ گیا تھا۔ اگر واقعی وہ عقلمند ہوتا تو اس نیلی زمین میں اتنے وسائل حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا، جس کے بعد حیرتوں کا یہ سفر اس پہ آسان ہو جاتا۔ تماشہ دیکھتے دیکھتے ، وہ خود اس کا ایک حصہ بن گیا تھااور اب سرِ بازار محوِ رقص تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں