ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہماری یہ پیاری زمین بنجر بیابان تھی۔ یوں تو زندگی کی بنیاد بننے والے بہت سے مفید عناصر یہاں بکثرت موجود تھے۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے بننے والا پانی موجود تھا‘ لیکن آکسیجن الگ سے نہیں تھی۔ بنیادی طور پر آج کرّہء ارض پہ پانے جانے والے تمام جانور بشمول حضرتِ انسان توانائی حاصل کرنے کے لیے اسی گیس کے محتاج ہیں۔ یہ وہ دور تھا، جب کرّہء ارض پہ ایک واحد پودا بھی موجود نہ تھا۔ زندگی تھی مگر اور قسم کی۔ چھوٹے درجے کے ایسے جاندار اس وقت پائے جاتے تھے، جو آکسیجن کے محتاج نہیں تھے۔ تب ایک واقعہ پیش آیا۔ اسے کرّہء ارض اور زندگی کی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ کہا جا سکتا ہے۔
ایک خوردبینی جاندار، خاص قسم کا ایک بیکٹیریا وجود میں آیا تھا۔ اس کا سائنسی نام سیانو بیکٹیریا تھا۔ یہ وہ عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، آج پودے جس میں مصروف رہتے ہیں۔ سورج کی روشنی اور پانی کے ملاپ سے اپنی خوراک بنانا اور اس عمل میں آکسیجن خارج کرنا۔ بیس کروڑ سال تک بڑی جانفشانی سے سیانو بیکٹیریا آکسیجن بنا تا رہا۔ یہ آنے والی سب جاندار نسلوں پر اس کا ایک عظیم احسان تھا۔ بیس کروڑ سال میں اس نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اسے The Great Oxygenation Event کہا جاتا ہے اور زندگی کی نشوونما میں یہ سب سے اہم واقعہ تھا۔ کرّہء ارض کی آب و ہوا، اس کا ماحول بدل کر رہ گیا۔ یہ جو آج کرّہء ارض کے ہر گوشے میں ہم بآسانی سانس لیتے، اپنے دماغ اور جسم کو توانائی بہم پہنچاتے ہیں، یہ اسی کے مرہونِ منّت ہے۔
زمین کی فضا میں مختلف گیسوں میں آکسیجن کا تناسب 21 فیصد ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب صرف 0.04 فیصد ہے۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ کوئلہ، تیل، گیس جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دوسری درجہء حرارت بڑھانے والی گیسوں میں ایک معمولی سے اضافے سے کرّ ہء ارض کا درجہء حرارت بڑھا ہے۔ سائنسدانوں کی رہنمائی میں عالمی برادری ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ اس اضافے کو دو ڈگری کی حد میں روکا جا سکے۔ اس لیے کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں آدمی جانتا ہے کہ دس ڈگری اضافے سے کرّہء ارض پر زندگی نیست و نابود ہو سکتی ہے ۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں، جب درجہء حرارت میں اضافے سے جاندار نسلیں تقریباً مکمل طور پر ختم ہوتے ہوتے بچی تھیں۔
کرّہء ارض پر آکسیجن سمیت مفید گیسوں کی بڑی مقدار میں موجودگی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیسوں کی صرف اتنی مقدار، جس سے اس کا درجہء حرارت برقرار رہے، خدا کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ مریخ کے نام سے ہماری ہمسایہ زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب 95 فیصد ہے۔ یہ سورج سے مناسب فاصلے پر موجود ہے اور مبینہ طور پر ایک وقت میں یہاں بہتا ہوا پانی بھی موجود تھا۔ اس کے باوجود گیسز کے اس ناموزوں تناسب کی بنا پر آج وہاں ایک زندہ جرثومہ بھی پایا نہیں جاتا۔
تیس نومبر سے شروع ہونے والے دو ہفتوں میں عالمی برادری فرانس میں سر جوڑے بیٹھی رہی۔ افتاد یہ آ پڑی ہے کہ آدمی کوئلہ، تیل اور گیس جلا کر ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین وغیرہ کی مقدار بڑھا رہا ہے۔ زمین کی تاریخ میں ایسے واقعات کی بنا پر ہلاکت خیز ادوار گزرتے رہے ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک زمانہ شاید پرمین دور تھا۔ یہ 25 کروڑ سال پہلے رونما ہونے والا سانحہ تھا۔ اس زمانے میں کرّہء ارض پر پائے جانے والے ہر 100 میں سے 96 جاندار ہلاک ہو گئے تھے۔ زندگی بہت مشکل سے ایک کروڑ برس میں بحال ہو پائی تھی۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں، کائنات کے موجودہ شکل تک ارتقا، نظامِ شمسی کی تشکیل، سیاروں کا اپنے اپنے سورج کے گرد مدار میں مستحکم رہنا اور خود کرّہء ارض پہ زندگی کی اس موجودہ شکل میں موجودگی میں سب سے بنیادی کردار کششِ ثقل (Gravity) کا ہے۔ یہی کششِ ثقل ہائیڈروجن جوڑ کر سورج بناتی ہے۔ اسی نے پتھروں سمیت تمام عناصر کو اس شکل میں جوڑا، جس میں آج ہم اپنی زمین سمیت دوسرے سیاروں کو دیکھتے ہیں۔ یہی کششِ ثقل آکسیجن اور دوسری مفید گیسوں کو زمین کی فضا سے فرار ہونے سے روکتی ہے۔ یہ کششِ ثقل ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ غالباً یہ حقیقتِ اشیا کے علم میں شمار ہوتی ہو گی۔
زمین میں آکسیجن آج سے 2.3 ارب سال پہلے رکھی گئی تھی۔ غالباً اس کا شمار اس زمانے میں، ان دنوں میں ہوتا ہے، جب خدا زمین بنانے کے بعد یہاں مخلوقات کی ضروریاتِ زندگی رکھ رہا تھا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، آکسیجن صرف سانس لینے میں اہم نہیں۔ یہ پانی کا بنیادی جزو بھی ہے۔ 70 کلو کے انسانی جسم میں 43کلو آکسیجن ہی ہوتی ہے۔ آکسیجن کے انقلاب (The Great Oxygenation Event) میں یہ آکسیجن جب دوسرے عناصر سے ملی تو نہ صرف یہ کہ نت نئے جانور وجود میں آئے‘ بلکہ انسانی و حیوانی ضروریاتِ زندگی بھی اس عمل میں تخلیق ہوئیں۔ زمین پر دھاتوں اور مفید عناصر میں اس دوران تیزی سے اضافہ ہوا۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ آج کرّہء ارض پہ موجود ساڑھے چار ہزار مفید اشیا میں سے اڑھائی ہزار اسی دوران وجود میں آئیں۔
زمین ہلاکت خیز ادوار سے گزرتی رہی ہے۔ وہ کم از کم پانچ ایسے خطرناک ترین زمانوں سے گزری ہے۔ خود آکسیجن کے انقلاب نے فضا سے گرم گیسوں کو جب کم کیا تو تیس کروڑ سال کا طویل ترین برفانی دور اس نیلی زمین پر گزرا تھا۔ یہاں اس زمین پر زندگی بہت ہی نازک توازنوں پر استوار ہے۔ نظامِ شمسی میں کرّہء ارض کے علاوہ صرف زحل کے چاند ٹائٹن پر کسی حد تک بھاری آب و ہوا پائی جاتی ہے؛ اگرچہ وہ سورج سے دور ہے اور درجہء حرارت وہاں انتہائی حد تک کم ہے۔
انسان پریشان ہے۔ کوئلہ، تیل، گیس جلا کر توانائی حاصل کرنا اور کارخانے چلانا اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس دوران کاربن کا اخراج لازم ہے۔ کاربن میں اضافے سے کرّہء ارض گرم ہو رہا ہے اور گرمی کی صورت میں تباہی اس کی منتظر ہے۔ کرّہء ارض کا ماضی دیکھتے ہوئے، اس کے طویل برفانی اور گرم ادوار دیکھتے ہوئے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ کائناتی درجے پر ایک ذرا سا حادثہ زندگی کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔ یہ حادثہ قریب آ لگا ہے۔ شاید وہ وقت قریب ہے، جب سورج کی ساری ہائیڈروجن پلک جھپکنے میں ہیلیم میں بدل جائے گی۔ القارعہ کا دھماکہ ہو گا۔ سورج پھیل جائے گا، زمین کے قریب آ جائے گا۔ پہاڑ اڑ جائیں گے۔ زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال پھینکے گی۔ ہم انسانوں کو جو شعورِ ذات بخشا گیا تھا، اس سے جوابدہی کی جائے گی۔