"FBC" (space) message & send to 7575

عقل کا منفی اور مثبت استعمال

یہ آج سے چالیس پچاس ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ انسان بظاہر اس وقت زیادہ خونخوار تھا مگر اس کے پاس اس طرح کی خطرناک جنگی ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ قبائل ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے۔ مرد اور بچّے قتل کر دیے جاتے۔ قیمتی اشیا اور اناج لوٹ لیا جاتا۔ لوٹ مارکی غرض سے قتل و غارت کا یہ عمل انفرادی طور پر بھی جاری تھا۔ زمانۂ قدیم کے ایسے ہی ایک آدمی کا یہ قصہ ہے، جس کا نام افولابی تھا۔ وہ اپنے حریف کو زیر کر چکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پتھر کا ایک بے حد نوکیلا اوزار تھا۔ چند لمحات کی دیر تھی کہ زیرِ دست دشمن کی گردن میں اسے پیوست کر دیا جاتا۔ اس کے گلے میں قیمتی پتھروں والی ایک مالا تھی۔ اس کے بعد اس کے اوزار بھی چھین لیے جاتے۔ انہی دونوں چیزوں کی وجہ سے وہ قتل کیا جا رہا تھا۔ عین اسی وقت آسمان پہ برق چمکی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ برق اس پورے سیارے کی فضا میں ہر کہیں دیکھی اور سنی گئی تھی۔ اس کی آواز خطرناک حد تک بلند، اس کی چمک نے آنکھیں چندھیا دی تھیں۔ 
اس سے قبل افولابی پتھر سے بنا ہوا خنجر بلند کر چکا تھا مگر چند لمحات کے لیے وہ اپنی جگہ پہ ساکت ہو گیا۔ آہستہ آہستہ اس کے اعصاب بحال ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر پھر وہ زمین پر بے بسی کے عالم میں پڑے ہوئے چی بوزو کے سینے سے اتر گیا اور کچھ سوچنے لگا۔ آسمانی بجلی کے ساتھ ہی اس کے دماغ میں عقل کا نزول ہوا تھا۔ ایک لمحے
میں اس نے آنے والے زمانوں کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ عقل کے ساتھ شاید اس لمحے میں آگہی بھی مقید تھی۔ یہ نہیں کہ اس سے قبل کا انسان سوچتا نہیں تھا مگر اس سوچ کا دائرۂ کار بے حد محدود تھا۔ اس کی زبان بھی چند بنیادی الفاظ، اشاروں اور آوازوں تک محدود تھی۔ اب افولابی کا تناظر ایک دم وسیع ہوا تھا۔ مسرّت سے وہ مسکرا رہا تھا۔ چی بوزو کو بتانے کے لیے اس کے پاس بہت کچھ تھا مگر ابھی الفاظ کی اپنی مختصر سی جمع پونجی میں سے وہ مناسب انتخاب میں مصرو ف تھا۔ چی بوزو کو وہ امن کا پیغام دینا چاہتا تھا۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ زیرِ زمین کوئلہ، تیل، گیس، لوہا اور ساری قیمتی دھاتیں موجود ہیں؛ لہٰذا مختصر سے وسائل پر جنگ کی اب کوئی ضرورت نہیں۔ اب وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کششِ ثقل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان ایک ایسی گول چیز (پہیہ) بنانے والا ہے، جو اپنے وزن پر خود ہی گھومتی چلی جائے گی۔ بھاری ساز و سامان اب اپنی پیٹھ پر لادنے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی۔ تصور کی آنکھ سے عقل و آگہی کے لمحے میں، افولابی نے مستقبل کے انسان کو گھروں میں آگ سے کھیلتے دیکھا تھا۔ یہ بات بتانے کو اس کا جی مچل رہا تھا کہ اب انہیں غاروں میں ساری رات ٹھٹھرنا نہ ہو گا۔
اس نے لوہے کی ٹھنڈی مشینیں (فریج) دیکھ لیے تھے، جن میں وہ اپنی زائد خوراک محفوظ کر سکتے تھے ۔ 
افولابی کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ زمین سے اناج کیسے اگایا جاتا ہے۔ اس بارے میں کلام کرنے کو وہ بے چین تھا۔ اسے معلوم تھا کہ انسان زیادہ گوشت اور دودھ والے جانوروں کی نسلیں پالے گا ۔ نئے بیج ایجاد ہوں گے۔ وہ یہ بتانا چاہتا تھا کہ خوراک کی قلّت اب مستقل طور پر ختم ہو جائے گی۔ ایک لمحے میں اس نے مستقبل کے آدمی کو لوہے پر بیٹھ کر زمین اور فضا میں سفر کرتے دیکھ لیا تھا۔ ایک دوسرے کے جانور ہتھیانے کے لیے قتل و غارت اب بے فائدہ تھی۔ اسے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ آواز اور تصویر لہروں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا کرے گی۔ چی بوزو کو وہ یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ مرد جب گھروں سے باہر ہوا کریں گے تو اپنی عورتوں اور بچّوں سے کس طرح وہ رابطے میں رہیں گے۔ یہ بھی کہ اسی طرح ڈیٹا کی منتقلی کے ذریعے ساری انسانیت عقل و دانش، علم کا تبادلہ کرے گی۔ ماضی کی ساری باتیں افولابی کو یاد تھیں۔ جہاں کہیں کبھی اس نے کوئی مفید دھات دیکھی مگر بے کار سمجھ کر اسے چھوڑ آیا تھا۔ اب واپس جا کر وہ ان سے مستفید ہونے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اسے اب یہ بھی معلوم تھا کہ صرف چشموں پر قناعت کی ضرورت نہیں۔ زمین کے نیچے پانی ہر کہیں موجود ہے۔ پانی کے لیے ہجرت کا زمانہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ مستقبل کی طب پر ایک نگاہ اس نے ڈالی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ زیادہ تر زخمی اب بچا لیے جائیں گے۔ وہ دور ختم ہونے کو تھا، جب زیادہ تر مائیں اور نومولود مر جایا کرتے۔ 
محفوظ، تابناک مستقبل میں افولابی اس قدر مگن تھا کہ اپنے گرد و پیش سے وہ مکمل طور پر غافل ہو گیا۔ اسے ایک زوردار جھٹکا لگا اور سینے میں شدید تکلیف محسوس ہوئی۔ چی بوزو نے اسی کا نوکیلا پتھر اسی کے سینے میں گھونپ دیا تھا۔ اصل میں چی بوزو پر بھی عقل کا نزول ہو اتھا بلکہ ساری انسانیت پر لیکن چی بوزو نے اس عقل کی روشنی میں کچھ اور چیزیں دیکھی تھیں۔ اس نے بندوق سے گولی نکلتے دیکھی تھی۔ اس
نے لوہے کے پرندوں کو آسمان سے آگ برساتے دیکھا تھا۔ اس نے آبادیوں پر میزائل برستے دیکھے تھے۔ جس لمحے افولابی زمین سے اناج اگتے دیکھ رہا تھا، چی بوزو نے جوہری ہتھیاروں سے لیس افواج دیکھی تھیں۔ اس نے طاقتور اقوام کے ہاتھوں کمزور ممالک کے وسائل کی لوٹ مار دیکھی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے دو عظیم جنگیں دیکھ لی تھیں۔ 
چی بوزو نے خود کو معاف کر دینے والے افولابی کو کیوں قتل کیا؟ عقل سبھی پہ نازل ہوئی تھی مگر جبلّت اپنی جگہ موجود تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جس کے بعد ہر انسانی سر میں عقل کو موجود ہونا تھا اور ہر کسی نے اپنے ظرف کے مطابق اسے استعمال کرنا تھا۔ ایک طرف فریج، ٹی وی، انٹرنیٹ، ٹیلی اور موبائل فون، جراثیم کش ادویات، آلاتِ جراحی، گاڑی، ہوائی و بحری جہاز سمیت ساری مفید ایجادات میں اس عقل کو استعمال ہونا تھا۔ دوسری طرف گولہ بارود، جنگی بحری و ہوائی جہاز، میزائل، ایٹم بم سمیت ساری تخریبی ایجادات میں بھی اسے ہی بروئے کار آنا تھا۔ عقل انسان کو سونپ دی گئی تھی۔ ہر آدمی اس کے منفی او رمثبت استعمال کے لیے آزاد تھا۔ افولابی نے عقل کے مثبت، چی بوزو نے اس کے منفی استعمال کا فیصلہ کیا تھا۔ عقل کے نزول سے دنیا میں امن قائم نہ ہونا تھا۔ خیر و شر کی کشمکش میں اب بہت شدّت پیدا ہونا تھی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں