میں نے اس سے یہ کہا ''حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ گزشتہ ماہ نہ صرف مجھے نوکری سے جواب دے دیا گیابلکہ گردے کی پتھری تکلیف دینے لگی ۔ گھٹنے الگ دکھتے رہتے ہیں ۔ گھر میں لڑائی جھگڑے کا ماحول ہے ۔کوئی گوشہ ٔ عافیت نظر نہیں آتا۔میرے دونوں بچّے پڑھائی سے بے زار ہیں ۔ان حالات میں ، میں زندگی سے اُکتا سا گیا ہوں ‘‘۔
اس نے یہ کہا '' اپنی ستر سالہ زندگی میں امیر غریب کی تخصیص کے بغیر ، کوئی شخص میں نے ایسا نہیں دیکھا ، جسے تکلیف نہ پہنچی ہو۔ جو آزمائش سے نہ گزرا ہو۔ بے روزگاری یا رزق میں کمی، بیماری ، رشتوں سے پہنچنے والی تکالیف، زندگی کے مختلف حصوںمیں ہر بندے کو ان سے واسطہ رہتا ہے ۔ ان سے گزرنا ہوتا ہے ، بندہ صبر سے گزرے یا شکایت کرتے ہوئے۔ یہاں اس دنیا میں ہر بندے کی آزمائش مختلف ہے۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اسے خدا نے کتنی قوت برداشت دی ہے ۔ تمہاری مشکلات میں اضافہ ہوا ہے تو تم ان سے نبرد آزما ہونے کی اپنی کوشش بڑھائو، جدوجہد تیز کرو۔ مشکلات ہماری تربیت کرتی ہیں ۔ زندگی میں پہنچنے والی چھوٹی اور بڑی مصیبتیں ہماری capacity building کرتی ہیں۔ فرض کرو، تمہارا رزق وسیع ہو، صحت اچھی اور گھر پرسکون ہو۔ ان سب نعمتوں کے بعد اگر تمہارے گھر ایک پیدائشی ذہنی معذور (ایب نارمل) بچہ جنم لے تو اپنے بچّے کی ذہنی صحت کے لیے تم ان سب نعمتوں سے محرومی گوارا کر لوگے ۔ بندے کو زندگی میں کیسی آزمائش سے گزرنا ہے ، اس کا انتخاب ہم خود نہیں کر سکتے ۔ پرسکون رہنا چاہتے ہو تو اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرو کہ ہم سات ارب ذہین انسان ، یہاں اس زمین پہ کیا کر رہے ہیں ‘‘۔
میں نے کہا '' تیسری دنیا کے جس ملک میں ہم رہتے ہیں ، یہ ایک بدترین ریاست ہے ۔ یہاں رہتے ہوئے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی چلی جار ہی ہے ۔ ہر کہیں فرقہ واریت ہے ۔ دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں ۔ر یاست کمزور اور بے بس ہے۔ قانون طاقتوروں کے ہاتھ کی لونڈی ہے اور یہ صرف کمزوروں پہ لاگو ہوتاہے ۔ دولت کا ارتکاز ہے ۔ مفلس غریب تر ہوتے چلے جار ہے ہیں ، دولت مند امیر تر۔ یہاں اس ملک میں مضبوط ادارے ہیں ، نہ کوئی نظام۔ مسیحائی کا دعویٰ کرنے والی بدترین اشرافیہ ہم پہ مسلط ہے ، جو اقتدار میں رہتے ہوئے کاروبار سے لطف اندو ز ہوتی ہے ۔ انتخابی نظام ، عوامی نفسیات، تعصبات کی پرورش سمیت، اس سارے نظامِ زر و ظلم کو وہ بخوبی سمجھتی اور اس سے
فائدہ اٹھانا جانتی ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ تابہ ابد وہ ہم پہ مسلّط رہے گی ۔ سچ پوچھوتو مجھے اس ملک کا شہری ہونے پر افسوس ہوتاہے ‘‘۔
وہ ہنسا اور اس نے یہ کہا ''مضبو ط مرکزی حکومتوں کا قیام، قومی افواج، پولیس اور اداروں کا قیام ابھی حال ہی کی بات ہے ۔ سچ پوچھو تو جدید انسان اپنی پچاس ہزار سالہ تاریخ میں ان سب کے بغیر اپنی بقا کی جنگ کامیابی سے لڑتا رہا ہے ۔چین اور ترکی سمیت، ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سے معاشرے شدید بدحالی سے بامِ عروج تک پہنچے ہیں۔ انسانی تاریخ معاشروں اور ریاستوں کے عروج و زوال سے بھرپور ہے۔ ہم جیسی بہت سی قومیں پستی اور بد حالی سے بلندی تک پہنچیں۔ جرمنی ، برطانیہ اور سوویت یونین
سمیت، بہت سی عالمی طاقتیں زوال کا شکار ہوئیں ۔ازل سے ابد تک ، یہ کہانی دہرائی جاتی رہے گی ۔ بہتراجتماعی زندگی سے لا تعلقی اختیار کرنے، سیاست میں حصہ نہ لینے والے معاشروں میں ہمیشہ بدترین لوگ مسلط ہو اکرتے ہیں ۔ پھر دو ہی راستے ہوتے ہیں ۔ یا تو وہ معاشرے پیہم استحصال کا شکار رہتے ہیں یا وہ میدان میں نکلتے اور بھرپور جدوجہد سے اپنی زندگی سنوارتے ہیں ۔ ‘‘
پھر اس نے یہ کہا ''بدحالی اور بد انتظامی کے اس دور میں بھی ، بہت سے لوگوں نے اپنی قسمت سنواری ہے ۔ جو لوگ ہمت نہیں ہارتے ، غور و فکر کرتے رہتے، عقل سے کام لیتے ، ریاضت کرتے اور اپنی اصلاح میں مصروف رہتے ہیں ، وہ بہتری کی جانب بڑھ ہی جاتے ہیں ۔ بدحال معاشروں میں بھی انفرادی طور پر لوگوں کے معاشی حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ ‘‘
میں نے یہ کہا ''دنیا بد سے بدتر ہوتی چلی جار ہی ہے ۔کوئلہ، تیل ، گیس اور پانی سمیت ، قدرتی وسائل کمیاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کا ڈھیر بلند سے بلند تر ہے ۔ دنیا کے ہر کونے میں مذہب کا لبادہ اوڑھے دہشت گرد لاشوں کے ڈھیر لگاتے ہیں ۔گزشتہ صدی کی دو عالمگیر جنگو ں میں دس کروڑ ہلاکتوں کے بعد ، آدمی کو سبق سیکھنا چاہیے تھا۔ اس کے باوجود افریقہ کے بوکو حرام، ایشیا کی القاعدہ اور داعش سمیت، ہر کہیں انتہا پسندوں کا غلبہ ہے ۔ یوکرین میں مشرق و مغرب کی عالمی طاقتیں ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں ۔انسانی لہو بہت سستا ہو گیا۔ ہر دن اپنے ساتھ بربادی کا نیا پیام لاتاہے ۔‘‘
اس نے یہ کہا ''دنیا ہمیشہ خانہ جنگی، طاقتور اقوام کے ہاتھوں کمزور ریاستوں کی تباہی و استحصال ، بھرپور فتنہ و فساد کا شکار رہی ہے۔ اس کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا، جب انسانی کاسۂ سر میں عقل کا نزول ہو ا تھا۔ عقل تخلیق کرنے والا بخوبی جانتا تھا کہ ایٹم کی شکست و ریخت سمیت، ہر قسم کی مثبت و منفی ایجادات کا در کھل جائے گا۔ انسان مفید ٹیکنالوجی سے بڑھ کر جنگی آلات بنائے گا۔ قتل و غارت کی بنیاداسی وقت رکھ دی گئی تھی ، جب انسانی وحیوانی جبلتیں تخلیق ہوئی تھیں۔ ہر زمانے میں زندگی کو سمجھنے،جبلت کو عقل کے تابع رکھنے اور بڑی سچائی تک پہنچنے والے خال خال ہی ہوا کرتے ۔ ‘‘اس نے کہا ''یہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ وسائل کمیاب ہوتے جار ہے ہیں۔مفید عناصر ختم نہیں ہو رہے ، وہ صرف ایک سے دوسری شکل بدلتے ہیں ۔ کوئلہ جلتا ہے تو کاربن اور آکسیجن کا مجموعہ ہوا میں شامل ہو جاتاہے ۔ کاربن وہیں ہے ، آکسیجن بھی وہیں ۔ وہ جب چاہے گا ، انہیں دوبارہ مفید صورت میں ڈھال دے گا۔ وہ چاہے تو آسمان سے دم دار ستاروں میں دوبارہ سے مفید عناصر نازل کرے ‘‘۔
اس نے یہ کہا ''زندگی ویسی کی ویسی ہے ، جیسی تخلیق کے پہلے روز تھی ۔ زمانے اور زندگی کو بدلنے کی بجائے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرو۔ ‘‘