"FBC" (space) message & send to 7575

عورت کی آزادی

سوائے تولیدی اعضا کے، انسانی نر اور مادہ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اصل عضو دماغ ہے، جس سے تمام تر فیصلہ سازی اور ہر رویّہ پھوٹتا ہے۔ مغرب تو یہ فیصلہ کر چکا کہ عورت اور مرد برابر ہیں۔ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں، جو دو انتہائوں کے درمیان آباد ہے، کیا یہ ممکن ہے؟ میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان میں عورت اور مرد کی برابری قیامت تک ممکن نہیں۔ 
دو انتہائیں آپ کو ہر کہیں نظر آئیں گی۔ ایک طرف روایتی مذہبی طبقہ ہے۔ بعض قبائلی حلقوں میں مذہبی سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر یہ طے کر لیتی ہیں کہ عورتیں ووٹ نہیں ڈالیں گی۔ اس پر عمل درآمد بھی ہوتاہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے، جس کے خیال میں پاکستانی عورت کو اسی طرح مرد کے برابر آزادی حاصل ہونی چاہیے، جیسی کہ مغرب میں حاصل ہے۔ یہ مضحکہ خیز حد تک نقّال طبقہ اس بات کو اہمیت دینے پر تیار نہیں کہ مغربی آزادیوں کا نتیجہ کیا نکلا ہے۔ امریکی اور یورپی معاشرہ ترقی یافتہ ہے۔ ہم ان کی ایجاد کردہ ٹیکنالوجی، آسائشوں سے روزمرّہ زندگی میں لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ معاشرتی اقدار بھی ان کی قابلِ تقلید ہیں۔ امریکہ میں طلاق کی شرح 53 فیصد، سپین، پرتگال اور ہنگری جیسے یورپی ممالک میں یہ ساٹھ فیصد ہے۔ ساتھ رہنے کے لیے شادی وہاں ہرگز ضروری نہیں۔ بغیر نکاح کے آپ اکٹھے رہ سکتے، اولاد بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ آپ اپنی ہی جنس کے افراد کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں۔ اب اگلا ہدف خونی رشتے داروں کے ساتھ شادی ہے۔ 
ان سب رویّوں کے نتیجے میں بچّے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں ماں اور باپ دونوں کی توجہ اور رہنمائی میسر نہیں آتی۔ حکومت قوانین پر سختی سے عمل درآمد کراتی ہے۔ لاوارث بچوں کی وارث خود ریاست ہوتی ہے؛ چنانچہ ان کی بنیادی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہوتی ہیں۔ اولاد کو والدین کی دولت میں سے حصہ ملتا ہے۔ مادی ضروریات کے علاوہ بچے کو ماں باپ کی محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ توجہ اسے میسر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹھوکریں کھاتے ہوئے جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو پوری طرح مادیت پسند (Materialistic) شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ اسے ایک آزاد زندگی گزارنا ہوتی ہے۔ جب ایک خاتون کے ساتھ رہتے ہوئے وہ اکتا جاتاہے تو علیحدگی اختیار کرنے کے لیے آزاد ہوتا ہے۔ یہی آزادی عورت کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ یوں ان دو نوں کی اولاد مادیت پسندی کا اگلا شکار ہوتی ہے۔ 
مغربی ممالک اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں ہر ادارہ آئین میں درج اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں سوائے اعلیٰ عدلیہ، میڈیا اور فوج کے ہر ادارہ تباہی کی منہ بولتی مثال ہے۔ یہ سب اپنی جگہ، جہاں تک عائلی زندگی کا تعلق ہے، بحیثیتِ مجموعی پاکستان مغرب سے بدرجہا بہتر ہے۔ اگرچہ دیہات میں خواتین تشدد کا نشانہ زیادہ بنتی ہیں، اس کے باوجود مغرب کی عورت ایک اور طرح کے استحصال کا شکار ہے۔ ہمارے یہاں عورتوں کے نوکری کرنے کا رواج اب شروع ہوا ہے۔ اس کے باوجود اسے یہ آزادی حاصل ہے کہ اگر وہ خاندان کے معاشی مسائل سے قطعی طور پر لاتعلقی اختیارکرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ مغرب میں نہ کمانے والی عورت شاذ ہی کہیں گوارا کی جاتی ہے۔ 
عورت اور مرد کا دماغ ایک جیسا ہوتا ہے۔ انسانی دماغ کے تین حصے ہیں، یا کہہ لیجیے کہ ہمارا دماغ تین چھوٹے چھوٹے دماغوں پر مشتمل ہے۔ سب سے نیچے والا دماغ: برین سٹیم، یہ اس جگہ واقع ہے، جہاں ریڑھ کی ہڈی دماغ سے جڑتی ہے۔ یہ خالصتاً حیوانی دماغ ہے، جس میں عقل کا ایک فیصد گزر بھی نہیں۔ اس کے باوجود اس کی تشکیل یوں ہوئی ہے کہ زندگی برقرار رکھنے والے بنیادی افعال یہاں ماں کے پیٹ سے لے کر قبر میں اترنے تک جاری رہتے ہیں۔ یہ دل کو دھڑکنے کا حکم دیتا ہے اور پھیپھڑوں کو حرکت میں رکھتا ہے۔ سانس اسی کے ذریعے جسم میں اترتا ہے۔ معدے میں غذا ہضم کرانا اسی کا کام ہے۔ دوسرا دماغ لمبک سسٹم ہے، جذبات کی آماجگاہ۔ یہ بچوں میں کھیلنے کودنے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ والدین میں اولاد کی محبت اسی میں جنم لیتی ہے۔ تیسرے، اوپر والے حصے میں عقل ہوتی ہے۔ انسان میں یہ دوسرے سب جانوروں سے اعلیٰ ہے۔ مرد میں اور عورت میں بھی۔ یوں دماغ کے اعتبار سے دیکھیے تو بظاہر مر د اور عورت برابر ہیں لیکن پھر بھی پوری طرح برابر وہ ہرگز نہیں۔ 
مرد ہو یا عورت، اس کرّۂ خاک پہ دونوں آزمائے جار ہے ہیں۔ دونوں کے کاسۂ سر میں عقل رکھی گئی ہے۔ دونوں کے دل میں گناہوں کے لیے کشش رکھی گئی ہے۔ دونوں کو خدا کی شناخت تک پہنچنے اور اپنے نفس کی بجائے خدا کے احکامات پر عمل درآمد کا ہدف دیا گیا ہے۔ دونوں جہاں جسمانی طور پر مختلف ہیں، وہیں ان کے مزاج میں بھی فرق ہے۔ مرد خواہ الٹا لٹک جائے، وہ اولاد کو ماں جیسی توجہ نہیں دے سکتا۔ مرد اپنے خاندان کے لیے زندگی سے جیسے برسرِ جنگ رہتا ہے، مستثنیات کے سوا عورت ویسی جنگ نہیں کرسکتی۔ 
مرد و زن میں برابری ممکن نہیں۔ مرد اولاد پیدا نہیں کر سکتا۔ وہ قدرے خود غرض ہوتا ہے، 9 ماہ تک یہ وزن نہیں اٹھا سکتا۔ 9 ماہ تک عملی زندگی کے تقاضوں سے دور نہیں رہ سکتا۔ اسے کمانا ہوتاہے، گھر کا خرچ پورا کرنا ہوتا ہے۔ جیسی تیمار داری عورت کرتی ہے ، مرد کے بس کی بات نہیں۔ عائلی زندگی میں یہ بات سب سے اہم ہے کہ مرد اور عورت اس بات کو سمجھیں، غور کریں کہ انہیں اس دنیا میں کس لیے اتارا گیا ہے۔ یہاں اس نیلی سرزمین میں، جو وقت انہیں ایک ساتھ بتانا ہے،اس میں وہ ایک دوسرے کے لیے سہولت اور آسانی پیدا کریں۔ ایک دوسرے کو ذہنی سکون کی فضا میں رہنے دیں۔ اس کے لیے قانون سازی سے کہیں بڑھ کر تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ پاکستانی معاشرے میں نئے قوانین بنانے سے کہیں زیادہ عمل درآمد کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پولیس، ایف آئی آر کے اندراج اور عدالت میں عام طور پر وہی جیتتا ہے، جو زیادہ دولت مند، زیادہ با اثر ہوتا ہے۔ ایف آئی آر کا اندراج حقائق اور ثبوت و شواہد سے بڑھ کر صاحبِ اختیار کے اشاروں پر ہوتا ہے۔ ایسے میں آپ لاکھ قوانین بناتے رہیے، کچھ فائدہ نہیں ہونے کا۔ یہاں میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ عورت خوبصورت ہے۔ پولیس بلانے کی بجائے اگر ویسے بھی وہ 48گھنٹے گھر سے باہر رہنے کا حکم دے تو اس کا حکم سر آنکھوں پر۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں