"FBC" (space) message & send to 7575

عبرت اور سوال

کوئی یہ کہے کہ ایم کیو ایم کی تشکیل کا سبب مہاجروں کے ساتھ پیہم جاری رہنے والی زیادتی نہ تھی تو یہ سفید جھوٹ ہوگا۔ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت حالات کی ہوتی ہے ۔ 1978ء میں جب الطاف حسین نامی ایک شخص نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آگنائزیشن کی بنیاد رکھی توحالات کا دھارا اس کے حق میں بہہ رہا تھا۔ اردو بولنے والوں میں یہ احساس شدّت اختیار کر چکا تھا کہ پاکستانی ریاست کے طاقتور طبقات ان کے حقوق پامال کر رہے ہیں ۔ ہمیں پسند ہو یا نا پسند، الطاف حسین ان کی اکثریت کے نزدیک ایک ہیرو تھا ۔اس کو انہوں نے اپنا قائد مانا اور چار دہائیوں تک اسے پوجتے رہے ۔ بے شک الطاف حسین کی کہانی میں عبرت ہے ۔ سیاستدانوں اورسیاسی کارکنوں کے لیے ، ریاست ، فوج اور سب سے بڑ ھ کر میڈیا کے لیے ۔ 
انسانی ذہن بنیادی طور پر متعصب ہوتاہے ۔یہ سندھی ، مہاجر اور دیگر لسانی ، مذہبی اور دوسری بے شمار بنیادوں پر با آسانی تقسیم ہوجاتاہے ۔ یہ ذات برادری کی طرف لپکتا ہے ۔ رشتہ ڈھونڈتے ہوئے ہم اپنی ذات کو سامنے رکھتے ہیں ۔ یہی سندھی ، پنجابی ، بلوچ اور پشتون جب بیرونِ ملک جاتے ہیں توغیر ملکیوں کے مقابل پاکستانی کہلانا پسند کرتے ہیں ۔ 1965ء میں جب بھارت ہم پہ چڑھ دوڑا تو یکایک سب کٹر پاکستانی ہو گئے ۔ وطن 
کی بڑی طاقتور عصبیت حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لسانی عصبیتوں پہ غالب آگئی ۔ پاکستانی ہونا تب اس لیے بھی ضروری تھا کہ یہ ہماری بقا کے لیے ضروری تھا۔ ہر جاندار میں بقا کی جبلت دوسری تمام جبلتوں پہ ہمیشہ حاوی رہتی ہے ۔ 
بظاہرصرف چھ برس میں ''مہاجر‘‘ سے اس تنظیم نے ''متحدہ ‘‘ کا سفر طے کر لیا مگر درحقیقت آج اپنی موت کے ہنگام بھی وہ مہاجر ہی ہے ۔ کم و بیش چار دہائیوں پہ مشتمل الطاف حسین کی سیاسی زندگی دیدہ عبرت نگاہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں ، لیڈروں اور کارکنوں کے لیے اس میں یہ پیغام ہے کہ نفرت ، تعصب اور طاقت کی بنیاد پر حاصل ہونے والی کامیابی عارضی ہوتی ہے ۔طاقت اور پیشہ ور قاتلوں کی بجائے الطاف حسین اگر مصطفی کمال کے ترقیاتی کاموں کو بنیاد بنا تے تو کراچی سے ایم کیو ایم نکلتی اور لاہور سے پشاور تک پھیل جاتی ۔ یہ بھی کہ مظلومیت کے پرچار اور چالاکی کے بل پر تادیر اکثریت کو بے وقوف بنانا ممکن نہیں ۔ 
ایم کیو ایم کی کہانی میں ریاست کے لیے سبق ہے ۔ کمزور طبقات کے تحفظ اور ظالم کا ہاتھ پکڑنے میں اگر وہ تاخیر اور کوتاہی کرے گی تو ہزاروں انسانی جانوں اور عشروں بد امنی کی صورت میں قیمت اسے چکانا ہوگی ۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے لیے اس میں سبق یہ ہے کہ برائی کو برائی سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ یہ جماعتیں اگر حکمت سے کام لیتیں تو ایم کیو ایم کا خلا وہ پر کر سکتی تھیں ۔ مسلّح گروہ کے مقابل انہوں نے اپنے اپنے جتھے تشکیل دئیے اور کوئلوں کے کاروبار میں اپنے چہرے کو نور سے بھر لیا۔ 
ایم کیو ایم مر رہی ہے ۔ اس موت سے پیدا ہونے والا خلا کیا مصطفی کمال گروپ تنہا پر کرے گا؟ کیا تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی اس میں اپنا حصہ وصول کریں گی ؟ یہ ہم آنے والے دنوں میں بخوبی دیکھ لیں گے ۔ فی الحال یہ خلا اسی طرح موجود ہے ۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ آنے والے ہفتوں اور 
مہینوں میں کراچی اور پاکستان کی سیاست ہنگامہ خیز رہے گی۔ مافیاکی موت کبھی پر سکون نہیں ہوتی ۔ وہ قوتیں جو ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور جرائم کی آمدنی پہ پلتی ہیں اور جن کے منہ کو خون لگ چکا، اپنی موت سے پہلے وہ زمین و آسمان ایک کرنے کی کوشش کریں گی ۔ گزشتہ برس جون میں جنرل بلال اکبر نے کہا تھا کہ کراچی میں جرائم کی سالانہ آمدن 270ارب تک پہنچ چکی ۔ ایم کیو ایم کی کہانی میں میڈیا کچھ عریاں سا ہو گیا ہے ۔ وہ اخبار نویس ، جو اس کے خلاف ایک لفظ لکھنے اور بولنے کی ہمت نہ رکھتے تھے، آج شہ سوار بنے بیٹھے ہیں ۔ 
ایم کیو ایم کی کہانی میں ایک بہت بڑا سوال بھی موجود ہے ۔ 1996ء کے پولیس آپریشن نے متحدہ کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی ۔ اگر ایک بار پھر وہ زندگی کی طرف لوٹی تو اس لیے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنا دستِ شفقت اس پہ پھیلا رکھا تھا ۔ مشرف صاحب جس روشن خیالی کے علمبردار تھے، انتہا پسند سیاسی جماعتوں کے مقابل ایم کیو ایم اس پہ سولہ آنے پوری اترتی تھی ۔ جنرل صاحب کے پورے دورِ اقتدار میں وہ ان کی اتحادی رہی ؛حتیٰ کہ 12مئی 2007ء کو جسٹس افتخار چوہدری کراچی گئے تو وہاں خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ جنرل پرویزمشرف نے حسبِ روایت اس پہ مکّے لہرائے تھے ۔ایم کیو ایم کے ''را‘‘ سے روابط کا انکشاف عامیوں پہ اب ہو اہے مگر آرمی چیف ملک کا سب سے با خبر (well Informed)شخص ہوتا ہے ۔ کیا ایم کیو ایم کے مردے میں نئی جان ڈالنے والے پرویز مشرف کا کبھی احتساب ہو گا؟ وہ پرویز مشرف جو ایم کیو ایم کے راسے تعلقات سے نہ صرف آگاہ تھا بلکہ اس نے اسے عسکری طور پر دوبارہ منظم ہونے کا بھرپور موقع دیا۔ یہ ناچیز ہی آسان لفظوں میں بتا دیتا ہے ۔ آئین شکنی ، ججوں کی معزولی، نیب کے ذریعے سیاستدانوں کی خرید و فروخت اور اکبر بگٹی قتل کے علاوہ ایم کیو ایم پروری پر بھی جنرل پرویز مشر ف کا احتساب کبھی نہیں ہوگا۔ عدالت کے حکم پر یہ احتساب شروع ضرور ہوا تھا ۔ نون لیگ کی حکومت نے خصوصی عدالت بھی تشکیل دے دی تھی ۔ 6اپریل 2014ء کو نو منتخب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پھرایس ایس جی کمانڈوز سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا: فوج دوسرے اداروں کا احترام ضرور کرتی ہے مگر اپنے وقار کا بھی ہر قیمت پر وہ تحفظ کرے گی ۔ اس کے ساتھ ہی جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنے والوں کا جوش و خروش سرد پڑ گیا تھا۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ فوج بطور ایک ادارہ پرویز مشرف کا تحفظ نہیں کرنا چاہتی ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں