"FBC" (space) message & send to 7575

جمہوریت کا منہ پہلے ہی سرخ ہے

سیاسی قیادت نے قسم کھا رکھی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا لطیفہ وہ اس قوم کو سناتی رہے گی۔ مشرف روانگی پر صورتِ حال یہ ہے کہ نامی گرامی سیاستدان سیاسی حمام میں کھڑے ایک دوسرے پہ انگلیاں اٹھا رہے ہیں ۔ سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ 2008ء کے بعد پرویز مشرف کو انتہائی عزت و احترام سے سبکدوش اور بیرونِ ملک روانہ کرنے والی پیپلز پارٹی بھی احتجاج کررہی ہے۔ کہنا اس کا یہ ہے کہ فوجی آمر کی بیرونِ ملک روانگی سے جمہوریت کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ رسید ہوا ہے ۔سچ یہ ہے کہ 2008ء سے اب تک یکے بعد دیگرے اتنے تھپڑ جمہوریت کے نازک رخسار پہ برسے ہیں کہ اب وہ لالو لال ہے۔ مشرف روانگی کا ایک تھپڑ اس سرخی میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ 
2008ء سے 2013ء کے درمیان صدر زرداری کی حکومت پیپلز پارٹی کے زوال کا سبب قراردی جاتی ہے ۔ میری رائے میں یہ زوال 2007ء میں اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب انتہائی نا مقبول جنرل پرویز مشرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے ڈیل کر لی تھی ۔ پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کو پانچ سال کے لیے دوبارہ صدر منتخب ہونے میں مدددی ۔جمہوریت کے منہ پر یہ بڑا زوردار تھپڑ تھا۔مخدوم امین فہیم نے صدارتی امیدوار بنتے ہوئے اس متنازع انتخاب کو سندِ قبولیت عطا کی، جو ان اسمبلیوں میں منعقد ہو رہا تھا، جلد ہی جنہیں تحلیل ہو جانا تھا، ایک اور تھپڑ۔ اسی ڈیل کے تحت پرویز مشرف نے سپہ سالاری سے سبکدوشی اختیار کی ۔ این آر او کا تھپڑ تو جمہوریت ساری زندگی نہیں بھولے گی۔ 
جمہوریت میں وراثت نہیں ہوتی۔جب بلاول زرداری کا نام بدل کر بلاول بھٹو رکھا گیا اور جب محترمہ کا شوہر ہونے کے صدقے زرداری صاحب کو صدر بنایا گیا توانہیں آپ ہلکے پھلکے چانٹے سمجھ لیجیے ۔ مری میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں معاہدہ ہوا ۔دونوں جماعتوں کی متحدہ حکومت بنی ۔ اس وقت سیاسی جماعتوں سے عوام کی توقعات آسمان کو چھو رہی تھیں ۔ ان کا قد بہت بلند تھا۔ صدر زرداری کے پانچ سالہ دور میں جب قرضوں میں آٹھ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، بجلی گیس ناپید، ہر سرکاری ملازمت بیچی گئی تو جمہوریت کا منہ روزانہ کی بنیاد پر طمانچے کھا تا رہا۔ پنجاب میں جب طلبہ میں سولر لیمپ بانٹے گئے، مینارِ پاکستان میں ٹینٹ لگے اور سابق صدر کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیا گیا تو یہ جمہوریت کی خدمت ہرگز نہ تھی۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزرائے اعظم نے جمہوریت کے ساتھ غریب کی جورو والا سلوک کیا ۔ حج سکینڈل، ایفی ڈرین سکینڈل، میمو سکینڈل، رینٹل پاور سکینڈل.... محترمہ جمہوریت پہ اتنے الزامات لگے کہ کیا کسی پہ لگے ہوں گے۔
جب یہ کہا گیا: چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو نام بدل دینا تو یہ جمہوریت کے ساتھ مذاق ہی تو تھا۔ لاہور سندر میں جب فیکٹری تلے مزدور دب کر جاں بحق ہوئے ، جب دل کے مریضوں کو ناقص دوادے کر قتل کیا گیا اور متعلقہ حکام کو کسی نے ہاتھ نہ لگایا توکیسی جمہوریت ، کہاں کی جمہوریت ؟ 
جنرل پرویز مشرف کے دور میں شرح ِ ترقی نے آٹھ فیصد کو چھوا۔ 2005ء میں بدترین زلزلہ آنے کے باوجود اگلے برس یہ چھ فیصد تھی‘یہ 4.7سے اوپر نہیں جا سکی۔جنرل پرویز مشرف فوجی پسِ منظر رکھتے تھے، انہیں کاروبار کا کچھ خاص علم نہیں تھا۔ اس کے باوجود ان کے دور میں ترقی کی شرح دو سے چار فیصد تک زیادہ رہی۔ یہ جمہوریت کی بے آبروئی ہے اور وہ بھی سیاسی قیادت کے ہاتھوں ۔ 
2013ء کا الیکشن منعقد کرانے کے لیے نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر ایک ایسے شخص کو ذمہ داری سونپی، جو جنرل کیانی سے دو گھنٹے طویل ملاقات کے بعد ان کے ہاتھ آرمی چیف کے لیے پیغام بھجوانا چاہتا تھا۔ ایک ایسا شخص جو سامنے بیٹھے سپہ سالار کو نہ پہچان سکا، اسے الیکشن میں دھاندلی کا سدّباب کرنا تھا۔گویا جمہوریت کی نو عمر دوشیزہ ایک 85سالہ دولہے سے بیاہ دی گئی تھی ۔ 3نومبر2007ء کی ایمرجنسی کا متن تحریر کرنے والے زاہد حامد سمیت مشرف کے تقریباً تمام ساتھی نون لیگ میںنہ صرف واپس قبول کر لیے گئے بلکہ انہیں وزیر مشیر سمیت اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔ یہ جمہوریت کے منہ پر تیزاب پھینکنے کے برابر تھا۔ اسی اقدام کے نتیجے میں پرویز مشرف کا احتساب ، غداری کا مقدمہ چلانا ناممکن ہوگیا۔ 
پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں اپنے طویل ادوار میں اداروں کی اصلاح میں ناکام رہیں۔ پچاس ارب روپے لگانے کے باوجود آج راولپنڈی کی ٹریفک بدترین صورتِ حال کا شکار ہے ۔ دونوں پولیس سے انسدادِ دہشت گردی کا کام لینے میں ناکام رہیں۔ پولیس، استغاثہ اور عدالتی نظام میں تو اس قدر خامیاں تھیں کہ دہشت گردوں کے لیے فوجی عدالتیں بنا نا پڑیں ۔ جس دور میں سول ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہیں ، وہاں جمہوریت کا حسن بیان کرنے والوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتاہے ۔ 
پرویز مشرف کی بیرونِ ملک روانگی سے متعلق جتنی گرما گرمی آپ دیکھ رہے ہیں ، وہ عارضی ہے ۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں اس حمام میں ایک ساتھ موجود ہیں ۔ دونوں کے طریقے مختلف، سیاسی نعرے جدا مگر دونوں کو دولت کے انبار کما کر بیرونِ ملک منتقل کرنا ہیں۔ شوگر مافیا کی اکثریت انہی دونوں جماعتوں میں براجمان ہے ۔ مشرف کی رخصتی پر دونوں ایک دوسرے کو موردِ الزام تو ٹھہرا رہی ہیں۔ اصل بات کوئی نہیں کر رہا۔ جمہوریت کا بول اس وقت بالا ہوتا ہے، جب سول حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش، ادارے مضبوط اور عوام کو صحت ، تعلیم اور روزگار مہیا ہو‘تب عوام حکومت کی پشت پہ کھڑے ہوتے ہیں۔ تب سبکدوش کیا، حاضر سروس سپہ سالار کا احتساب بھی ممکن ہوتاہے ، اگر وہ خطا کا مرتکب ہو۔ جمہوریت کے سر پہ آنچل رکھنا ہے تو عوام کے لیے کچھ کر کے دکھائیے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں