اس روز فجر کی نماز کے بعد جب خالد صاحب نے یہ کہا کہ خواب میں عبد الغفور کو انہوں نے جنت میں دیکھا ہے تو میرے سوا سبھی ہنس پڑے۔ اگلے روز ایک اور نمازی نے یہی خواب دیکھا ۔ حیرتوں کی حیرت،دو روز بعد امام صاحب نے بھی ۔ یہ تصور ہی ناقابلِ یقین تھا کہ عبد الغفور جنت میںبیٹھا مونچھوں کو تائو دیتاہو۔اصل بات صرف مجھے معلوم تھی ۔ اس وقت جب عبدالغفور آخری ہچکی لے رہا تھا، میں اس کے پاس موجودتھا۔
عبد الغفور ایک سکہ بند بدمعاش تھا۔ یہ بات درست ہے کہ شرفا کو وہ تنگ نہ کرتا تھالیکن بہرحال وہ شریف آدمی بھی نہیں تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ ابھی اس کی عمر چند برس تھی، جب بازار میں گھر والوں سے وہ بچھڑ گیا تھا۔ اس کے بعد وہ کبھی اپنے والدین کا منہ نہ دیکھ سکا۔ اس کا بچپن ٹھوکروں میں گزرا ۔ گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پہ ، جہاں جگہ ملتی وہ ڈیرا لگا لیتا ؛حتیٰ کہ کوئی اسے دھتکار کے وہاں سے بھگا دیتا۔ ان حالات میں وہ ایک سخت جان ، لڑائی جھگڑوں میں ملوث شخص بنا تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی ۔ 25برس کی عمر میں ، وہ اس قابل ہوا کہ اپنی رہائش کے لیے ایک کمرہ کرائے پر لے سکتالیکن ایسے بدمعاش کوکون اپنے ہاں ٹھہراتا۔ خیر، امام صاحب نے بروں سے بھی اچھے سلوک کی تلقین کی تو میں نے ایک الگ تھلک کمرہ اسے دے دیا۔ آہستہ آہستہ وہ میرا دوست بنتا چلا گیا ۔میں اسے برائی سے دور رہنے کی تلقین کرتا تو وہ ہنس پڑتا۔
عبدالغفور ایک خدائی فوجدار تھا۔ جب وہ کسی پہ ظلم زیادتی ہوتے دیکھتا تو شاید اپنا بچپن اسے یاد آجاتا تھا۔ وہ مظلوم کی حمایت میں جھگڑ پڑتا ۔ دوسروں کو لہو لہان کر دیتا اور خود زخموں سے چور ہوجاتا۔ پھر پولیس آتی ، اسے گرفتار کر کے لے جاتی ۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ زیادہ سے زیادہ چند روز میں وہ پھر آزاد نظر آتا۔ میں نے بہت بار اسے کریدا۔ مونچھوں کو تائو دے کر وہ بڑے غرور سے کہتا''تمہیں نہیں پتہ ، میں کس کا بندہ ہوں ۔ میرا ٹانکا بہت اوپر فٹ ہے ‘‘۔ یہ جملہ گویا اس کا تکیہ کلا م تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی دھاک بیٹھتی چلی گئی ۔ وہ جس مسئلے میں الجھتا، اسے منطقی انجام تک پہنچا کر چھوڑتا۔ اپنی کامیابی پر ہمیشہ اسے یہی جملے دہراتے سنا گیا'' تمہیں کیا معلوم، میں کس کا بندہ ہوں ‘‘ اور یہ کہ ''میرا ٹانکا بہت اوپر فٹ ہے ‘‘۔ اس کا سرپرست کوئی سیاستدان تھا یا کوئی اعلیٰ افسر، اس بارے میں کبھی کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ یہ بات البتہ طے تھی کہ اس کے تعلقات کہیں کسی بہت بڑے بندے سے استوار تھے۔دس برس اسی طرح گزر گئے۔
اس رات جب وہ واپس آیا تو اس کے جسم میں بہت سے چھید تھے۔ بہت سا خون بہہ چکا تھااور زخموں کے منہ ابھی تک کھلے تھے۔ بازو کی ٹوٹی ہوئی سفید ہڈی ادھڑے ہوئے گوشت میں سے باہر جھانک رہی تھی ۔ اس روز صرف میں ہی اس کے قریب تھا۔ وہ قریب المرگ تھا اور ہسپتال جانے سے اس نے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا آخری وقت آچکا ہے اور کسی تدبیر کا اب کوئی فائدہ نہیں ۔اس تمام عرصے میں ، مجھے اس سے ایک انس سا ہو چلا تھا۔ میری نظر میں بظاہر وہ ایک برا شخص لیکن دل کا بہت اچھا تھا۔ میں خو د بھی طب کے شعبے سے وابستہ تھااور مجھے معلوم تھا کہ جس نوعیت کے زخم جن مقامات پر اسے لگے تھے، ان میں اب اس کی موت یقینی تھی ۔ ہر بدمعاش کا یہی انجام ہوتا ہے لیکن خدا جانتا ہے کہ مجھے اس سے ہمدردی تھی ۔ میری یہ خواہش تھی کہ اس کا انجام اچھا ہوتا۔ اس دنیا میں نہیں تو اُس دنیا میں ۔ میں روتا رہا اور اس سے میں نے یہ کہا ''عبد الغفور، تو نے اپنی زندگی ضائع کردی ۔ کاش تو نے نیکیوںمیں اپنی عمر بتائی ہوتی ۔ کاش تو اپنی توانائی دین کی نذر کرتا۔ کاش تو نے نمازپڑھی ہوتی ، قرآن دیکھا ہوتا۔ ‘‘ ۔ خون اگلتے ہوئے عبد الغفور نے مونچھوں کو تائو دیا اور یہ کہا ''تمہیں کیا معلوم، میں کس کا بندہ ہوں، میرا ٹانکا بہت اوپر فٹ ہے ‘‘
مجھے ایک بہت زور کا جھٹکا لگا ۔ میرا دماغ سن ہو کر رہ گیا۔ اس روز پہلی بار یہ انکشاف ہوا کہ فخر سے مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے ،جب وہ یہ کہتا تھا کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کس کا بندہ ہے تو اس کی مراد خدا سے ہوتی تھی۔ اسے اپنے خدا سے محبت تھی اور یہ تعلق اتنا مضبو ط تھا کہ سکرات کے عالم میں جب روح جسم کا ساتھ چھوڑنے والی تھی ، تب بھی اپنے اس تعلق پہ وہ نازاں تھا۔ اس کے سینے میں ایک اچھا دل تھالیکن جیسے حالات اسے پیش آئے، ان کے پیشِ نظر اگر وہ بدمعاش نہ بنتا تو بقا کی جنگ میں ہار جاتا۔
اس روز اپنے آخری لمحات میں ، اس نے مجھے بتایا کہ جائے نماز اور قرآن اس نے کہا ں چھپا کر رکھا ہے ۔ اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ یہ بات میں کسی کونہیں بتائوں گا کہ عبد الغفور کے کمرے میں جائے نماز اور قرآن موجود تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک بدنام شخص ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص اس بات کا طعنہ دے کہ خدا کے بندے بدمعاش ہوتے ہیں ۔ پھر وہ خدا سے باتیں کرنے لگا۔ اس وقت وہ ایک معصوم بچّے کی طرح تھا، جو تکلیف میں اپنی ماں کو پکار رہا ہو ۔ میں اسے دیکھتا رہا، اس کے پائوں چومتا رہا۔ اس بدمعاش کے سامنے اپنا ایمان ، اپنے ماتھے کا محراب مجھے حقیر لگ رہا تھا۔ یہ وہ شخص تھا، اپنی محرومیوں کی بنا پر خود ترحمی کا شکار ہونے کی بجائے، جو ساری زندگی مخلوق کے سامنے خدا سے اپنے تعلق پہ فخر کرتا رہا۔ یہ وہ شخص تھا، اپنی بدنامی کی وجہ سے ، جس نے کبھی کھل کے اپنے محبوب کا نام تک نہ لیااور سینے میں یہ راز چھپائے دنیا سے گزر گیا۔
یہ اس سے اگلے دن کی بات ہے ، جب دو نمازیوں اور ان کے بعد خود امام صاحب نے بھی اسے جنت میں دیکھا ۔ جی ہاں ، جنت میں بھی وہ مونچھوں کو تائو دے رہا تھا۔